تحریر: ڈاکٹر مجاہد منصوری۔۔
قارئین کرام ! گزرے 27دسمبر 2022ء کے ’’آئین نو‘‘ بعنوان ’’200بلین پاکستانی ڈالر ،صدر اور وزیر خزانہ ‘‘میں اسلامی جمہوریہ پاکستان کے آئینی سربراہ، صدر مملکت، تمام ریاستی اداروں اور ریاستی سیٹ اپ سے باہر کے ذمے داران ( سیاسی جماعتوں، میڈیا اور سول سوسائٹی ) کو اپنے صحافتی دماغ میں بسی یادداشت کی بنیاد پر ان کی توجہ 9مئی 2014ءکی قومی اسمبلی کے وقفۂ سوالات میں وزیر خزانہ اسحاق ڈار کی اس جوابی رپورٹ کی طرف دلائی تھی جو انہوں نے صدر مملکت جناب عارف علوی (اس وقت رکنِ اسمبلی ) کے ایک سوال کے جواب میں ایوان کو آگاہ کرنے کے لئے پیش کی تھی ۔سوال سوئٹزرلینڈ کے بینکوں میں پاکستانیوں کے خفیہ اکائونٹس میں موجود 200بلین ڈالر سے متعلق تھا، جو اب میں اطلاع کو نہ صرف درست قرار دیا گیا تھا بلکہ اس عزم کا اظہار بھی کیا گیاتھا کہ ناجائز ذرائع سے سوئس بینکوں میں پہنچایا گیا یہ خطیر ملکی سرمایہ واپس لایا جائے گا اور اس سلسلے میں ابتدائی کارروائی شروع کر دی گئی ہے اور اس ضمن میں سوئیس بینکنگ کونسل کی ٹیم اگست میں پاکستان آئے گی۔
قومی اسمبلی کی یہ کارروائی 10مئی 2014ء کے اخبارات میں شائع ہوئی، تمام تفصیلات تو نہیں، ناچیز کے ذہن میں آج کے بھی وزیر خزانہ اسحاق ڈار (ہی) کا یہ بیان ذہن نشین ہو گیا تھا، اب جو انتہائی محدود ملکی لٹا پٹا خزانہ قرضوں کی ادائیگی میں ہفتے عشرے کی بنیاد پر تیزی سے تحلیل ہو رہا ہے،سونا اورڈالر ملک سے باہر منتقل ہونے کے دل دہلانے والے مسلسل خبری زلزلوں کے بعد آٹے کا بھی کال پڑ گیا تو 10مئی 2014ء کی سکہ بند زیر بحث خبر کی نیوز آرکائیو سے تصدیق کے بعد ناچیز پر اسمبلی کارروائی کی جملہ تفصیلات (جو میں نے 27دسمبر 2022ء کے کالم میں درج کیں ) آشکار ہوئیں تو میں حیرت زدہ ہوگیا کہ صدر جناب عارف علوی جو ایوان میں سوال کے محرک تھے، نے اتنے گھمبیر معاشی بحران میں جو ان کی جماعت کا اقتدار شروع ہونے پر بھی بلند ترین درجے پر تھا، انہوں نے عہدۂ صدارت پر فائز ہوتے ہی وزیر اعظم عمران خان کی توجہ اس طرف کیوں نہیں دلائی ؟نیز ن لیگی حکومت نے (بقول) اپنے وزیر خزانہ کے دیئے گئے بیان کی روشنی میں 2014ءسے 2018ء تک کے عرصہ میں ایوان میں پیش کی گئی تحریری رپورٹ کا فالو اَپ کیوں نہیں کیا؟جبکہ وہ یہ مطلع کر چکے تھے کہ اس ضمن میں ابتدائی کارروائی شروع ہو گئی، پھر ان کا یہ جو عزم اس وقت سے میرے ذہن نشین ہو گیا، اس پر وزیر خزانہ کے اسمبلی میں بیان کے بعد بھی ن لیگی اقتدار چار سال تک جاری رہ کر مکمل ہونے تک اس پر کوئی فالو اَپ کارروائی نہ ہونا یا ہوئی تو اس سے قوم کو آگاہ نہ کرنا پھر سوال کے محرک کا ریاست پاکستان کا آئینی سربراہ بن جانے کے بعد اس پر اپنی جماعت کے اقتدار میں آنے کے بعد بھی خاموش رہنا کس قدر معنی خیز ہے؟
اگر بلند ترین درجے کے ریاستی و آئینی ذمے داران، صدر مملکت اور وزیر خزانہ عرصہ آٹھ سال میں اپنا اٹھایا سوال اور دیا گیا جواب بھول چکے تھے تو اب جو گھمبیر سیاسی و آئینی بحران کو ختم کرنے کےلئے ان کا ناکام مذاکراتی سلسلہ حال ہی میں شروع ہوا، ایسا کیسے ہوسکتا ہے کہ اس میں جاری تشویشناک اقتصادی بحران پر قطعی کوئی غیر رسمی بات نہ ہوئی ہو انہیں اپنا سوال و جواب اس میں بھی یاد نہ آیا؟
اب بطور تجزیہ یا کالم نگار نہیں بلکہ بحیثیت ووٹر ریاست پاکستان کے آئینی سربراہ اور وزیر خزانہ سے ناچیز کا سوال ہے کہ وہ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں انٹرنیشنل لیول کی کرپشن سے غریب ممالک کے ارب ہا غرباء کی زندگی اجیرن ہونے پر سیکرٹری جنرل کوفی عنان کی ذاتی دلچسپی سے منظور عالمی اینٹی کرپشن کی تین اجلاسوں کی قراردادوں ، سابق سوئس وزیر خارجہ اور ایک بینک کے ڈائریکٹر کی پاکستانیوں کے سوئس بینکوں میں 200بلین ڈالر ہونے کی تصدیق، پھر پاکستان میں ماحول کی بین الاقوامی آلودگی سے پاکستان میں ہونے والی 30بلین ڈالر کے زراعت اور دیہی آبادی کی تباہی کو بنیاد بنا کر پورا پاکستان دنیا کےسامنے سراپا احتجاج کیوں نہیں بن سکتا؟ لیکن اس کے لئے وزیر خزانہ کے 8سالہ قبل کے عزم کے مطابق حکومت مطلوبہ قدم پہلے اٹھائے تو کچھ ہو گا جبکہ سوئس بینکوں میں خفیہ اکائونٹس تک حکومتوں کی پہنچ کے حوالے سے قانون سازی ہو کر ناجائز ٹھکانے لگائے بھاری بھرکم سرمائے کا ’’تحفظ‘‘ ڈھیلا ہو چکا ہے سو دھیلے کی کرپشن سے بھی پاک ہونے کے دعویدار وزیر اعظم شہباز شریف قدم بڑھائو ہم تمہارے ساتھ ہیں۔ اگر ڈیفالٹ اسٹیٹس ہمارے دروازے پر دستک دے رہا ہے تو پاکستان کے سوئس بینکوں میں سرمائے کی مصدقہ موجودگی پر اتنے گمبھیر معاشی بحران میں بھی اتنی ملکی خاموشی کا کیا مطلب؟جبکہ ناچیز کا 27دسمبر 2022ءکے کالم شائع ہونے کے بعد اور کچھ نہیں تو اس کی کوئی تردید یا وضاحت تو آتی یا ایوان صدر اور وزارت خزانہ کے پبلک ریلیشنز آفیسر متذکرہ کالم ہر دو بڑوں کی ٹیبل پر پہنچانے سے قاصر رہے ۔وہی نہیں ،تحریک انصاف کا میڈیا سیل بھی اس پر خاموش کیوں رہا؟عمران خان کو ان 200بلین ڈالر کی مزید تفصیلات کہ یہ کن پاکستانیوں کے ہیں کتنے جائز اور کتنے غیر قانونی ہیں؟ان کی واپسی کے لئے حکومت پاکستان نے کیا کرنا ہے ؟ان سوالوں کے جواب حاصل کرنے کےلئے کوئی بات کرنی چاہئے یا نہیں ؟نہیں تو کیوں؟اور خاموشی کا کیا معنی ؟یا سارا زور پنجاب کی سیاست پر ہی لگ گیا ہے ؟جیسا کہ تحریک انصاف کا مہنگائی کے ریکارڈ ٹوٹنے اور آٹے کی کال پر بھی خاموشی کا ’’صبر جمیل ‘‘ عوام سے بھی بڑھ کر ہے اگر پارٹی 200بلین ڈالر کی اتنی بڑی نشاندہی پر کوئی بات نہ کرنے کی سکت نہیں رکھتی تو اپنے ایم این اے سید علی محمد کا بائیکاٹ ختم کرا کر انہیں ہی اسمبلی جانے کی اجازت دے دے کہ وہی جاکر ہم ووٹروں کا حق حاصل کرتے ہوئے وزیر خزانہ پر ایک سوال ہی داغ دیں کہ ڈار صاحب!آپ نے مئی 2014ءکو اس ایوان میں سوئس بینکوں کی 200بلین ڈالر کی واپسی کا جو عزم ظاہر کیا تھا اس پر آٹھ برسوں سے خاموشی کے سائے کیوں پڑے رہے لیکن علی محمد اس امکانی سوال کا جواب بھی تیار کرکے جائیں کہ آپ نے اپنے دور میں سوال کے اپنے ساتھی محرک کے جواب کی روشنی میں اس حوالے سے کوئی قدم کیوں نہیں اٹھایا؟
قارئین کرام !آج کا یہ ’’آئین نو‘‘ علم صحافت کے مطابق جرنلزم کی روح رواں ’’فالو اَپ‘‘ کی پیروی کرتے ہوئے قلمبند کیا گیا صحافتی پریکٹس سے خبروں (اب تو تجزیوں کا بھی )فالو اَپ نکال دیا جائے تو قومی ابلاغی دھارا گندے ٹھہرے پانی کا جوہڑ بن جائےگا۔(بشکریہ جنگ)
فالو اپ
Facebook Comments