تحریر:اشفاق حسین۔۔
گزشتہ ہفتے میری طرف سے کئے گئے فردوس جمال صاحب کے انٹرویو کے بعد 28 اکتوبر کی رات جرمنی میں مقیم ان کے بیٹے حمزہ کی طرف سے ایک وڈیو جاری کی گئی جس میں انہوں نے بتایا کہ ہماری والدہ خلع لے چکی ہیں کیونکہ دونوں کا ساتھ چلنا بہت ہی مشکل تھا۔حمزہ نے اپنی اور والدہ کی قربانیوں کا ذکر بھی کیا۔یقینی طور پر انہوں نے اس رشتے کو چلانے کی بہت کوشش کی ہوگی۔ بہت اچھی بات ہے ایک بیٹا ماں کی تعریف کرے۔دوسری طرف حمزہ نے بتایا کہ گھر انہوں نے محنت کرکے بنایا، والد کا علاج بھی انہوں نے کروایا، چھوٹے بھائی بازل فردوس نے والد کی بہت خدمت کی جبکہ ان کی بہن نے بھی بہت کچھ کیا۔چلیں بہت اچھی بات ہے۔ اولاد کا فرض ہے یہ سب کرنا لیکن میرا صرف سوال یہ ہے کہ فردوس صاحب نے ساری زندگی جو کمایا وہ کہاں گیا؟ فردوس صاحب نے مجھے بتایا تھا کہ ان کا پہلا ڈرامہ 20 سال کی عمر میں ہی سپرہٹ ہوگیا تھا۔اب وہ ستر سال کے ہیں،یعنی ان کی پچاس سال کی کمائی کہاں گئی؟بچوں نے جیسے خود محنت کرکے گھر بنایا اسی طرح اپنی پڑھائی بھی خود کی ؟کیا خود ہی پل گئے ان کی سکول کی فیسیں، ان کے اخراجات وہ خود کرتے رہے؟ کینسر کے مرض میں مبتلا ہوئے تو جو ایک کروڑ کا چیک حکومت نے فردوس صاحب تک پہنچایا وہ پیسے کہاں گئے؟کیوں بیٹے کو علاج کے پیسے دینے پڑے؟ میں سمجھتا ہوں کہ والدین کے لڑائی جھگڑوں میں بچوں کو پارٹی نہیں بننا چاہیے، جتنی ماں اہمیت کی حامل ہوتی ہے اتنا ہی باپ بھی ہوتا ہے۔ فردوس صاحب کینسر کے مرض میں مبتلا ہوئے، پھر اللہ تعالیٰ نے انہیں شفایاب لیکن ابھی بھی وہ مکمل صحتیاب نہیں ہیں ۔جسمانی کمزوری کے سبب وہ ٹھیک طرح چل نہیں پاتے،ان کی یاد داشت بھی کمزور ہوگئی ہے۔ میں ان کا گھر دیکھ کر حیران رہ گیا ۔سیم زدہ دیواریں ، ڈرائنگ روم دروازے کے بغیر ، گھر کی خستہ حالت،ہر طرف اداسی اور ویرانی،کام کے لئے ایک نوکرانی آتی ہے جو کھانا وغیرہ بھی بنا دیتی ہے۔کرائے کے گھر میں فردوس صاحب اکیلے اگر گر جائیں تو انہیں اٹھانے والا کوئی نہیں ، اگر کسی وقت اچانک طبیعت خراب ہو جائے تو پوچھنے والا کوئی نہیں۔ پانی دینے والا کوئی نہیں۔حمزہ نے اپنی وڈیو میں یہ سوال بھی کیا کہ ہمارے والد نے اس علاقے کا ہی انتخاب کیوں کیا جبکہ لاہور میں بہت بہت اچھے علاقے بھی ہیں۔یہ تو ان کی اولاد کو سوچنا چائیے جو خود تو پارک ویو جیسے خوبصورت علاقے میں جبکہ فردوس صاحب اقبال ٹاؤن کے سابقہ فلم سٹوڈیو کی خستہ حال کالونی کے پرانے سے گھر میں رہائش پزیر ہیں۔اختلافات جتنے بھی سنگین ہوں ماں باپ کے، لیکن بچوں کو اپنے بیمار والد سے ہاتھ نہیں اٹھانا چاہیے، والد سو فیصد بھی غلط ہو ، چلیں مان لیتے ہیں فردوس جمال سو فیصد غلط ہیں لیکن انہوں نے زندگی کا ایک بڑا حصہ کام کرکے بچوں کو پالا ۔اچانک آپ ان کو زیرو کیسے کر سکتے ہیں؟ میں فردوس صاحب کی سابقہ اہلیہ سمیت ان تمام عورتوں کو سلام پیش کرتا ہوں جو شوہر کے ظلم و ستم صرف اس لئے سہتی ہیں کہ ان کی اولاد ہے، علیحدگی کی صورت میں وہ پریشانی دیکھے گی ، لیکن جب زندگی کا ایک بڑا حصہ نکال لیا جائے ، پچھلا وقت آجائے اس وقت علیحدگی ہوجانا افسوسناک ہے۔اللہ تعالیٰ فردو س صاحب کی مشکلات میں کمی کرے۔ فردوس صاحب کے سخت مزاج سمیت دیگر مسائل ہیں لیکن 70 سال کی عمر میں وہ اس کے مستحق نہیں ہیں۔میں کوئی نہیں ہوں یہ سب سوالات اور باتیں کرنے والا لیکن فردوس صاحب کی جو حالت میں نے انٹرویو کے روز دیکھی اور پھر بیٹے کی وڈیو میں باتیں سنیں تو شدید دکھ ہوا۔جس وقت انہیں فیملی کی ضرورت ہے سب نے انہیں چھوڑ دیا جس کا اصل ذمہ دار کوئی بھی ہو لیکن اولاد کو ایسا نہیں کرنا چاہئیے تھا۔کم از کم مسلمان ہونے کے ناطے ہی سوچ لیتے کہ اللہ تعالیٰ اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بزرگ والد کے لئے کیا احکامات ارشاد فرمائے ہیں۔اللہ تعالیٰ اولاد کو ہدایت فرمائے اور ہر کسی کو ایسے برے وقت سے محفوظ رکھے۔آمین(اشفاق حسین)