تحریر: علی معین نوازش
پاکستان کی صحافت کی اگر بات کروں تو حقیقت یہ ہے کہ پاکستان میں جمہوری اقدارکے فروغ کےلیے، سخت سے سخت ڈکٹیٹر کے خلاف آوازاٹھانےاور حقائق کو عوام کے سامنے لانےمیں ہماری صحافت کا بڑا کرداررہاہے اوراس کے لیے صحافیوں نے بڑی قربانیاں بھی دی ہیں۔ اس کے باوجود ہماری صحافت یا صحافیوں پر اگرکوئی تنقید کی جاتی ہے تو اس میں کچھ ذمہ داری ہمارے قارئین یا ناظرین پر بھی عائد ہوتی ہے ۔کیونکہ ہمارے قارئین اورناظرین اس بات پر واہ واہ کرتے اور اسے سچ سمجھتے ہیں جسے وہ خو د دیکھنا اور سنناچاہتے ہیں۔اس کی سب سے بڑی مثال ہمارے سینئر جرنلسٹ عمر چیمہ یا جنگ گروپ ہے کہ جب پاناما کے حوالے سے خبریں شائع ہوئیں تو اپوزیشن اور ان قارئین و ناظرین نے کھل کرداد دی جو حکومت اور میاں برادران کو بدنام کرنے میں دلچسپی رکھتے یاا نہیں نقصان اٹھاتے دیکھناچاہتےتھے۔ جبکہ حکومت اوراس کے حلیف اس پر کھل کر تنقید کرتےرہے کہ پاناما کی خبریں شائع کرکے صحافی نے ایک نان ایشو کو خواہ مخواہ کا ایشو بنادیا ہے ۔اس طرح جب اس صحافی نے ایک سیاسی پارٹی کے سربراہ کی تیسری شادی کی خبر دی تو پہلی خبرپر تنقید کرنے والے خوش ہوگئے اور پہلی خبرپر تالیاں بجا بجا کر داد وتحسین دینے والے سخت نالاں ہوگئے۔اوراسے زرد صحافت قرار دینےلگے۔ میں اس بات کااعتراف بھی کرتا ہوں کہ ہما رے صحافیوں میں بھی کچھ خامیاں ضرور ہوںگی۔ لیکن ہمیں یہ نہیں بھولناچاہیے کہ ہماری صحافت اور صحافیوں نے اس میدان میں جیلیں بھی بھگتی ہیں،کوڑے بھی کھا ئے ہیں اور جانیںبھی قربان کی ہیں۔وقت کے ساتھ ساتھ ہمارا اچھا معیار مزید بہترین معیار میں تبدیل ہوگا اس کے لیے ہم سب کو کردارادا کرنا ہے۔اگر کہیں فلمی طرز کی صحا فت نظر آتی ہے تووہ لو گ بھی وقت کے سا تھ ساتھ ایکسپو ز ہو ں گے اور صحا فت کے معیا ر کے حو ا لے سے کو ئی شکا یت پید ا نہیں ہو گی۔۔۔(بشکریہ جنگ)