تحریر : علی عمران جونیئر
دوستو،زمانہ طالب علمی میں سینما بینی کا جنون کی حد تک شوق تھا، کوئی ہفتہ ایسا نہیں ہوتا تھا جب فلم نہیں دیکھنے جائیں۔۔ ان دنوں پنجابی فلموں میں سلطان راہی اور انجمن کا راج تھا، اردو فلمیں بناتو کرتی تھیں لیکن ماضی کی طرح وہ بات نہیں ہوتی تھی، کبھی کبھی منہ کا ذائقہ بدلنے کے لئے پرانی فلمیں دیکھنے جاتے تو اکثر وحیدمراد، منور ظریف اور رنگیلا کی فلمیں ہی دیکھتے۔۔ اب وہ زمانہ نہیں رہا، فلم دیکھنے کیلئے سینما جانا گھر کا بجٹ تباہ کرنے کے برابر ہے۔۔ مہنگے ترین ٹکٹ، اوپر سے وہاں کچھ کھانے پینے کا موڈ بنے تو وہ خرچہ بھی الگ۔۔ پہلے سینما کے ٹکٹس بھی سستے ہوتے تھے، کھانے پینے کی اشیا بھی سستی ملتی تھیں، لیکن اب زمانہ بدل چکا ہے۔۔
فلموں کا تذکرہ چل پڑا ہے تو ہمارے پیارے دوست نے ہمیں پرانی فلموں کی یاد کے حوالے سے ایک خوب صورت تحریر واٹس ایپ کی ہے۔۔ ان کا کہنا ہے کہ۔۔ پرانی فلموں میں امیر ہیروئن کے گھر گرینڈ پیانو ضرور ہوتا تھا جسے غریب ہیرو نہ صرف بجانا جانتا تھا
بلکہ بجا بجا کر ساتھ ہی بیوفائی کے شکووں بھرے گیت
گاتا تھا،جسے صرف ہیروئن سمجھ کر ساڑھی کا پلو مڑوڑتی تھی جبکہ باقی کراؤڈ احمق گھامڑ بنا سنتا تھا۔ پرانی فلموں میں ہاتھ سے لکھے خط آج کل کی وڈیو کال کی طرح جدید ہوتے تھے، کیونکہ خط کھولنے کے بعد لکھنے والے کی خط میں تصویر آتی اور وہ خود سناتا کیا لکھا ہے۔پرانی فلموں میں جونہی ہیروئین کو ہیرو سے پیار ہوتا، قریب ہی موجود بکرے کے لیلے کی شامت (موجیں پڑھا جائے) آ جاتی اور ہیروئین اسکو کٹ کے جپھی پا کر چومنا شروع کردیتی۔پرانی فلموں میں ہیرو ہیروئن کے پیار محبت کا اظہار گانوں کے دوران دو پھول یا درختوں پر بیٹھے طوطا مینا کیا کرتے تھے۔پرانی فلموں میں درخت کو گلے لگانا، محبوب کو گلے لگانا ہوتا تھا۔پرانی فلموں میں ہیرو کو دیکھتے ہی اچھی بھلی ہیروئن کو سانس چڑھ جاتی تھی۔ پرانی فلموں میں ڈاکٹر اتنے لائق ہوا کرتے تھے دیکھتے ہی ہارٹ اٹیک یا کینسر کا پتہ لگا لیتے تھے وہ بھی بغیر کسی ٹیسٹ کے اور سونے پہ سہاگہ مرنے کی ڈیٹ بھی دے دیتے تھے۔ پرانی فلموں میں بری خبر سننے کے بعد ہاتھ میں پکڑی چیز لازمی گر جاتی تھی۔
پرانی فلموں میں جب ہیروئن گھر چھوڑ کے جاتی، اس کے جملہ ملبوسات، جوتے، ہینڈ بیگ، جیولری، میک اپ کا سامان کرشماتی طور پر ایک سوٹ کیس میں فٹ ہو جاتا تھے۔پرانی فلموں میں گانے اور رقص کو اتنی اہمیت حاصل تھی کہ اگر ولن کو کوئی چھیڑ خانی کرنی بھی ہوتی، یا لڑکی کے باپ کو بے عزت کرنا ہوتا، تو گانا اور رقص ختم ہونے کا انتظار کرتا تھا۔ پرانی فلموں میں ہیروئن روڈ پہ ناچ گانا کرتی اور لوگ ایک دائرہ بناکے اسکو انتہائی احترام اور تمیز سے دیکھتے تھے۔ ہیروئن کی سہیلیوں کو پتا ہوتا تھا کہ ہیروئن نے کونسا گانا گانا ہے، وہ ہمیشہ کورس ڈانس پریکٹس کر کے گھر سے آتی تھیں۔ ہیرو کے دوست کو دنیا کا کوئی کاروبار کرنے کی ضرورت نہیں ہوتی تھی اس کا کام سارا دن ویلا ہیرو کے ساتھ پھرنا ہوتا تھا۔ پرانی فلموں کے کلائیمکس میں ہیرو کی ماں اور محبوبہ ہمیشہ ولن کے قبضے میں بندھی حالت میں ملتی تھیں اور ہیرو کی ساری جدو جہد پر پانی پھیر دیتی تھیں۔ عدالت کا فیصلہ ہیرو کے خلاف آنے کے باوجود ہم سب کو پتہ ہوتا تھا کہ آخری وقت میں ہیرو زخمی حالت میں گھسٹتاہوا عدالت کا دروازہ کھول کر کہے گا کہ اصل ثبوت وہ اب لے کر آیا ہے۔ پرانی ڈراونی فلموں میں شہر سے بہت دور ایک بنگلے میں بتی جل رہی ہوتی تھی مگر بوڑھے چوکیدار نے ہمیشہ لالٹین ہی پکڑی ہوتی تھی۔ نا جانے ایسے بنگلے میں وہ اکیلا کیا کرتا تھا اور اسے تنخواہ کون دیتا تھا۔
پرانی فلموں میں جب ہیرو کو پتہ چلتا تھا کہ اس کا کروڑپتی باپ اصل میں ڈان مافیا اور جرائم پیشہ عناصر کا سرغنہ ہے تو وہ بغاوت کردیتا تھا لیکن آج کل وہ اپنے باپ کے نقش قدم پر چل پڑتا ہے۔پرانی فلموں کی طرح بے عزتی پہ ہارٹ اٹیک ہوتے تو، ہر صحافی مہینے میں دس،بارہ دفعہ مرتا۔۔پرائیویٹ ملازمت پرانی فلموں میں ہیرو کی ”بہن“ جیسی ہوتی ہے، جو ہر وقت ”خطرے“ میں رہتی ہے۔۔موبائل اب ایجاد ہوا ہے لیکن اس زمانے میں پنجابی فلموں کا ہیرو 100 کلومیٹر دور سے اپنوں کی آواز سن لیتا تھا ورنہ کم سے کم اس کا گھوڑا تو ضرور سنتا تھا۔۔آج کل خان صاحب کی تقریروں میں دھمکیاں اور گالیاں سن کر پرانی پنجابی فلموں کے ولن یاد آ گئے جو ہر سین میں ہیرو سے خوب مار کھاتے ہیں اور ہڈیاں تڑواکے کپڑے جھاڑ کے اٹھتے ہیں اور پہلے سے بھی زیادہ زور سے بھڑک لگاتے ہوئے کہتا ہے۔۔اوئے میں چھڈا گا نہیں۔۔میں اڈی مار کے دھرتی ہلا دین والا جوان آں۔۔اور پھر مار کھاتا ہے۔۔پرانی فلموں میں ہیروئین صرف ہیرو کو خیال میں لاکر ناچا گایاکرتی تھی، پھر ذرا ایڈوانس دور آیا تو ہیروئین اپنے ہیرو کے سامنے ناچنے گانے لگی اور ہیرو ”ایٹی ٹیوٹ“دکھاتے ہوئے اسے ہمیشہ ”اگنور“ مارتا رہا،پھر میلے ٹھیلوں کا دور آیا،ہیروئین اپنی سہلیوں کے ہمراہ اکٹھے ناچتی تھی، وقت اور آگے بڑھا، معاشرہ کچھ اور ایڈوانس ہوا تو ناچ گانا، کلبوں میں ہونے لگا۔ یا پھر سہلی یا دوست کی شادی میں پھر نیا اسلوب آیا اب ناچنا جلسوں میں ہونے لگا ہے، وہ بھی قومی یا پارٹی ترانوں پر۔۔ مگر اس سال ایک نئی قسم کا رقص پیش ہوا ہے مجرا سٹائل اس کے لئے ایک اسٹیج چند رقاص اور چودہ اگست کا انتظار کرنا پڑے گا۔۔پرانی فلموں میں زہر اتنا غیر معیاری ہوتا تھا کہ ہیروئن پوری بوتل پی کے بھی پورے گانے پہ ڈانس کر لیتی تھی۔۔بہرحال کچھ بھی، پرانے دور کی فلمیں تب بھی لاجواب تھیں اور آج بھی دیکھو تو حسین یادیں تازہ ہوجاتی ہیں۔۔
جب علاقے کی مسجد کے مولوی صاحب کو ٹی وی پر فلم دیکھتے ہوئے رنگے ہاتھوں پکڑا تو پوچھا گیا کہ۔۔مولوی صاحب آپ نے تو کہا فلم دیکھنے والا دوزخ جائے گا تو آپ نے کیوں دیکھی؟؟؟ مولوی صاحب نے جواب دیا۔۔اسی وجہ سے نفرت کی نگاہ سے دیکھ رہا تھا۔۔بچہ سینما دیکھ کر گھر آیا تو ماں نے ناراض ہوکر طنزیہ انداز میں پوچھا۔۔ کچھ خراب دیکھ آئے؟؟ بچے نے برجستہ کہا۔۔ہاں وہاں اباّ کو دیکھ آیا۔۔پڑوسی ملک کے دو نامور شعرا کرام جنہوں نے بالی ووڈ میں کئی سپرہٹ گانے بھی تحریر کئے۔۔ ساحر لدھیانوی نے جاں نثار اختر سے کہا۔۔یار جاں نثار! اب تم کو ”پدم شری“ خطاب مل جانا چاہئے۔۔۔جاں نثار نے پوچھا۔۔ ”کیوں؟“۔۔ساحر نے جواب دیا۔۔ ”اب ہم سے اکیلے یہ ذلت برداشت نہیں ہوتی۔“
اور اب چلتے چلتے آخری بات۔۔ٹانگوں کے بغیر آپ کیسے لگیں گے؟؟ اس لئے اپنی ٹانگ بلاوجہ کسی کے کام میں نہ اڑایا کریں۔۔خوش رہیں اور خوشیاں بانٹیں۔۔