تحریر: حسن کاظمی۔۔
تحریک انصاف کی حکومت کا کہنا ہے کہ ملک کی فلم پالیسی کا اعلان مارچ 2021 تک متوقع ہے اور اس ضمن میں بنیادی خاکہ تیار کر لیا گیا ہے لیکن چونکہ پالیسی روز روز نہیں بنائی جاتی اس لیے اس کی تراش خراش کی جاری ہے تاکہ ایک ہی مرتبہ جامع انداز میں اسے پیش کیا جائے۔حکومت کی جانب سے ملک میں فلمی صنعت کے فروغ کے لیے گذشتہ دنوں وزیرِ اعظم عمران خان نے خصوصی ہدایات جاری کی تھیں اور کہا تھا کہ اس سلسلے میں تمام محکموں کا اپنا کردار ادا کرنا ہوگا تاکہ پاکستان میں فلمی صنعت کا ازسرِ نو احیا ہوسکے۔اس ضمن میں انڈپینڈنٹ اردو نے وفاقی وزیرِ اطلاعات و نشریات شبلی فراز سے خصوصی انٹرویو میں یہ جاننے کی کوشش کی کہ ملک میں فلمی صنعت کی بحالی کے لیے کیا اقدامات کیے جا رہے ہیں خاص کر فلم سازوں کی شکایات اور مشکلات کے ازالے کے لیے حکومت کیا سوچ رہی ہے۔
وفاقی وزیر شبلی فراز نے بتایا کہ پاکستان میں فلم سازی کو اگرچہ 1992 ہی میں صنعت کا درجہ دیا جاچکا ہے تاہم ’بدقسمتی سے اس پر کبھی عمل نہیں ہوا لیکن اب وزیرِ اعظم کی ہدایت کے مطابق ہم اس کا ازسرِ نو احیا کر رہے ہیں اور ایک جامع پلان بھی دے رہے ہیں کہ کس قسم کی فلموں کو حکومت سہولت دے سکے گی۔شبلی فراز نے کہا کہ فلم سازوں کو بینک سے قرضے کے لیے ایک نظام کی ضرورت ہے کیونکہ بینک کو سب سے پہلے یہی فکر ہوتی ہے کہ اس کا پیسہ واپس کیسے آئے گا۔اسے بطور ایک سابق بینکار میں یہ کہہ سکتا ہوں کہ اگر سکیورٹی اور قرضے کی واپسی کا معاملہ طے پا جائے تو یہ ہوسکتا ہے کیونکہ عموماً ایسے معاملات میں قرضے کسی چیز یا جائیداد کے عوض بینک گارنٹی پر ہی دیے جاتے ہیں۔انہوں نے تسلیم کیا کہ اس وقت سینیما مالکان کو ٹیکس کی چھوٹ ہے جبکہ فلم ساز کو دو مرتبہ ٹیکس ادا کرنا پڑتا ہے اور حکومت اس مسئلے پر غور کر رہی ہے اور اسے حل کیا جائے گا۔
ملک میں فلم سازی کو درپیش مشکلات میں ایک اہم معاملہ عکس بندی کے لیے ایک مقام پر درکار کئی کئی اجازت نامے بھی ہیں جن کے تدارک کا وفاقی وزیرِ اطلاعات نے یقین دلایا اور کہا کہ اس سے بہت ہی زیادہ دِقت ہوتی ہے اور وہ چاہتے ہیں کہ پاکستان کے دلکش مقامات کو عکس بندی ہوں تاکہ سیاح پاکستان کی جانب متوجہ ہوں۔ ’اسی لیے اس پہلو کو حکومت نے اپنی فلم پالیسی میں شامل کیا ہے۔سینیما مالکان کی جانب سے صنعتی نرخوں پر بجلی کی فراہمی کے مطالبے پر ان کا کہنا تھا کہ ہر ایک کو ٹیکس میں اگر رعایت دی جاتی رہی تو گردشی قرضہ کیسے ختم ہوگا۔ ’لیکن فلم پالیسی میں اس معاملے پر بات ہو رہی ہے خاص کر نئے فلم سازوں کے لیے کچھ گنجائش ضرور ہونی چاہیے لیکن ان کے ذاتی خیال ٹیکس کی مکمل چھوٹ نہیں ہونی چاہیے اور یہ ذرا مشکل کام بھی ہے۔حکومت کی جانب سے سستے سینیما کی تعمیر کے معاملے پر ان کا کہنا تھا کہ ہر چیز حکومت کے کرنے کی نہیں ہوتی البتہ ہم نجی شعبے کو اس ضمن میں سہولت فراہم کرسکتے ہیں۔
شبلی فراز نے کہا کہ کمرشل فلموں کی اپنی ضروریات ہوتی ہیں تاہم ملک میں آرٹ فلمیں بھی بننی چاہیں اور ’ہمیں اپنے ہیروز کی تشہیر کرنی چاہیے، ہم اپنے خطے کے ہیروز پر فلمیں کیوں نہیں بنا سکتے۔وفاقی وزیرِ اطلاعات نے کہا کہ فلم سازی ایک تخلیقی عمل ہے اور وہ اس لیے سینسر میں سختی کے قائل نہیں ہیں۔ ’صرف یہ دیکھنا چاہیے کہ فلم میں ملک کی بنیادی سماجی اقدار چاہے مذہبی ہوں یا ثقافتی، ان کو نقصان نہ پہنچا رہا ہو۔‘ انہوں نے مزید کہا کہ فلم ایک ایسا میڈیم ہے جو زندگی کا عکاس ہوتاہے اس لیے وہ قدغن کے قائل نہیں۔شبلی فراز نے کہا کہ آئین میں اٹھارویں ترمیم کی وجہ سے بدقسمتی سے گورننس میں بگاڑ پیدا ہوا ہے، جس کی وجہ سے ملک میں اس وقت وفاقی اور صوبائی دونوں سطح پر سینسر بورڈز ہیں جنہیں یکجا کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ماضی کی حکومتوں کا یہ کام رہا ہے کہ کس طرح سے لوگوں کو کام کرنے سے روکا جائے اور اسی لیے کوئی بھی حکومتی ادارہ دیکھیں تو وہ کام روکنے میں زیادہ مستعدی دکھاتا ہے کام کو آگے چلانے میں میں نہیں۔انہوں نے کہا کہ کسی بھی شعبے میں اگر آسانیاں کم اور رکاوٹیں زیادہ ہوں تو لوگ اس کی جانب مائل نہیں ہوتے، اس لیے اس حکومت کی کوشش ہے کہ جتنا بھی ریڈ ٹیپ کا کلچر ہے اسے ختم کر کے کم سے کم لوازمات کے ساتھ اس عمل کو آگے بڑھایا جائے۔پاکستان میں سینیما مالکان اور فلم سازوں کے درمیان تصفیہ طلب امور کے حل کے لیے حکومت کی سطح پر ایک کمیٹی بنائی گئی تھی، اس کی غیر فعالیت کو تسلیم کرتے ہوئے شبلی فراز کا کہنا تھا کہ بالآخر تو تمام سٹیک ہولڈرز کو خود ہی اپنے ان معاملات کو دیکھنا ہوگا اور حل کرنا ہوگا۔پاکستانی فلمی صنعت کی جانب سے بار بار یہ مطالبہ کیا گیا ہے کہ قومی سطح پر حکومت کی جانب سے فنکاروں کی پذیرائی کے لیے ایک ایوارڈ کا اجرا کیا جائے۔ اس ضمن میں وفاقی وزیرِ اطلاعات کا کہنا تھا کہ وہ چاہتی ہیں کہ پاکستان کا ایک سافٹ امیج باہر جائے اور اس سلسلے میں جو بھی حکومت سے ہوسکا وہ کرے گی۔
پاکستانی فلموں کی ترقی کے لیے سینیما گھروں کی ضرورت ہے جن کی ترقی گذشتہ 13 برس سے بالی وڈ فلموں کی مرہونِ منت رہی ہے، اب جب بالی وڈ نہیں ہے تو سینیما گھر کیا کریں، اس بارے میں شبلی فراز کا کہنا تھا کہ بحران ہی میں مواقع ڈھونڈنے چاہیں۔انہوں نے کہا کہ بجائے باہر کی جانب دیکھنے کے مقامی سطح پر فلم سازی ہونی چاہیے۔ ’پاکستانی فلمی صنعت سے وابستہ افراد کو صرف حکومت کی جانب نہیں دیکھنا چاہیے بلکہ فنکار اپنا راستہ خود نکالتے ہیں۔ اس لیے جب تک یہ بندشیں ہیں اس دوران پاکستانی فلم ساز خود کو ڈیویلپ کریں۔(بشکریہ انڈی پینڈنڈنٹ)۔۔