تحریر: وسعت اللہ خان۔۔
جیسے زر منڈی میں نظم و نسق برقرار رکھنا اسٹیٹ بینک کی یا ٹیکس قوانین پر عمل کروانا فیڈرل بورڈ آف ریونیو کی اور کمپنیوں اور اسٹاک ایکسچینج کو ریگولیٹ کرنا سیکیورٹی اینڈ ایکسچینج کمیشن کی ذمے داری ہے اسی طرح فلمیں سنسر کرنا وفاقی و صوبائی سنسر بورڈز کا کام ہے۔ایک طویل زوالیہ گذارنے کے بعد پاکستان میں سینما کا احیا دو ہزار چھ سے ہوا ہے۔تب سے اب تک کوئی مقامی فلم ایسی نہیں جسے سنسر بورڈ نے مکمل طور پر ناقابلِ نمائش قرار دے کر اس پر مستقل پابندی عائد کی ہو۔ان دنوں سرمد کھوسٹ کی جس نئی فیچر فلم ’’ زندگی تماشا بنی‘‘ کو محض اس کے ڈھائی منٹ کے ٹریلر کی بنیاد پر متنازعہ بنانے کی کوشش کی جا رہی ہے خود اس فلم کو بھی مرکزی و صوبائی سنسر بورڈ دو دو بار نمائش کے لیے موزوں قرار دے چکے ہیں۔اس کے باوجود حکومتِ پنجاب صوبائی سنسر بورڈ کی جانب سے کلئیرنس کے باوجود اس فلم کو ایک مذہبی سیاسی تنظیم کے نمایندوں کی رضامندی سے مشروط کر بیٹھی ہے۔ حکومت سندھ نے صوبائی سنسر کی منظوری کے باوجود امن و امان کے خوف سے فلم کو ریلیز ہونے سے روک دیا ہے۔ جب کہ وفاقی حکومت مرکزی فلم سنسر بورڈ کی منظوری کے باوجود اس فلم کو اسلامی نظریاتی کونسل کی منظوری سے مشروط کر رہی ہے۔حالانکہ یہ کام نظریاتی کونسل کے مینڈیٹ میں ہے ہی نہیں۔ان حالات کے تناظر میں ابنِ انشا کا ایک اخباری کالم ہمارے دوست وجاہت مسعود کی ویب سائٹ پر ہم سب نے پڑھا۔انشا جی نے اب سے پچاس ساٹھ برس پہلے جو لکھ دیا وہ اس قدر تازہ ہے کہ اس کے بعد ہمیں اپنے حالات پر مزید کچھ لکھنے یا کہنے کی ضرورت ہی نہیں۔ملاحظہ فرمائیے۔
پچھلے دنوں فلم سنسر بورڈ نیا نیا بنا ہے اور اچھا بنا ہے۔ اس میں کچھ علما بھی شامل ہیں جن کو ویسے کبھی فلم دیکھنے کا اتفاق نہیں ہوتا۔ چنانچہ وہ پہلی بار یہ دیکھ کر حیران بھی ہوئے کہ تصویریں بھی چلتی پھرتی اور بولتی ہیں۔ آخر ہمارے ملک میں ایک بڑی آبادی ہے جو فلم نہیں دیکھتی، ان کی نمایندگی بھی ضروری تھی۔پھر بہت سے لوگ ایسے ہیں جو فلم دیکھتے ہیں لیکن اس کی سمجھ نہیں رکھتے۔ ان کی نمایندگی کے لیے ایسے لوگ بھی سنسر بورڈ میں رکھے گئے ہیں تاکہ اس کی ہیئت زیادہ سے زیادہ جمہوری ہو جائے۔ اب بظاہر کسی کو شکایت کا موقع نہ ہونا چاہیے۔لیکن تعجب کی بات ہے کہ اب بھی کچھ لوگ اس کی تشکیل سے مطمئن نہیں۔ ان میں سے ایک تو خیر ہم خود ہیں دوسرے راولپنڈی کے ایک حکیم صاحب ہیں جنھوں نے مطالبہ کیا ہے کہ ایک حکیم کو بھی سنسر بورڈ میں شامل کرنا چاہیے کیونکہ فلم میں حکیم کا کردار بڑے قابل اعتراض انداز میں پیش کیا جاتا ہے۔ بڈھا بے وقوف سنکی وغیرہ، سنسر بورڈ میں کوئی حکیم ہو گا تو اس قسم کی شرارت کا تدارک تو کر سکے گا۔لیکن ٹھہرئیے۔ حکیم ہے تو ایک ڈاکٹر بھی چاہیے۔ ورنہ تو فلم والے اپنی فلموں میں ڈاکٹر موٹو قسم کے کردار بھر دیںگے۔ اب ہومیوپیتھی بھی تسلیم ہے۔ لہذا ایک ہومیوپیتھ کو بھی نکس وامیکا کی شیشی لیے سنسر بورڈ میں موجود رہنا چاہیے۔ ہم تو کہتے ہیں کہ ایک سلوتری ہو تو عین مناسب ہے۔ آخر فلموںمیں انسان نہیں جانور اور مویشی بھی تو دکھائے جاتے ہیں۔ دوسرے اہل حرفہ بھی نمایندگی کے مستحق ہیں۔ ایک بار خاکروبوں کو شکایت پیدا ہوئی تھی کہ فلمیں صاف ستھری نہیں بنتیں۔ لانڈری والوں نے بھی مطالبہ کیا تھا کہ ہماری فلمیں بے داغ ہونی چاہئیں۔ نمائش سے پہلے ہمیں دی جائیں تاکہ ہم انھیں ڈرائی کلین کر دیں۔باربر حضرات کی یونین چونکہ زیادہ مضبوط ہے اس لیے وہ اپنے حقوق کے بارے میں زیادہ خبردار رہتے ہیں۔ وہ کئی بار شکایت کر چکے ہیں کہ فلمساز ان کے اچھے خاصے پیشے کی محض اپنی تفریح طبع کے لیے حجامت کر دیتے ہیں لہذا آدمی کوئی ان کا بھی دم تحریر ہونا چاہیے۔ یاد رہے کہ کسی باربر کو رکن بنانے میں سنسر بورڈ کا خرچ بھی بچے گا۔ اس کے لیے قینچی خریدنی نہیں پڑے گی۔ اس کے پاس ہوتی ہے۔
پس ہم فرض کر لیتے ہیں کہ ایک وقت آتا ہے جب کہ سب طبقوں کی نمایندگی سنسر بورڈ میں ہو جاتی ہے اور فلم ’’مائی کا لال‘‘ عرف ’’طوفان محبت‘‘ سنسر ہونے کے لیے تیار ہے۔ ہال پورا بھرا ہوا ہے۔ یہ دو ڈھائی سو آدمی تماشائی نہیں سب کے سب فلم سنسر بورڈ کے ممبر ہیں۔ ادھر ایک وکیل صاحب ہیں۔ ایک منشی جی بھی کان پر قلم رکھے تشریف فرما ہیں۔ ایک تھانیدار بھی ہتھکڑی لیے موجود ہے۔ ایک پٹواری بھی اپنے بستے سے ٹیک لگائے منتظر ہے۔ ایک سیٹھ صاحب ہیں۔ ایک سود خور کابلی بھی سائیکل لیے موجود ہے۔ حتیٰ کہ ایک طرف افیمچیوں کا نمایندہ بھی افیم کی طشتری لیے اور گنڈیریاں رومال میں باندھے بیٹھا ہے کیونکہ فلم والوں کو اور کوئی نہیں ملتا تو انھی کا مذاق اڑا دیتے ہیں۔اچھا اب باتیں بند کیونکہ فلم شروع ہو گئی ہے۔ لیجیے لڑکی یعنی ہیروئن اٹھلاتی ہوئی پانی بھرن کو چلی۔ پانی بھرن کا تو بہانہ ہے، آج کل دیہات میں بھی نلکے لگے ہوئے ہیں۔ مقصود اس کا ہیرو کو منہ دکھانا ہے۔ یک لخت آواز آتی ہے ’’ٹھہرو، روکو فلم۔ یہ فلم نہیں چل سکتی‘‘۔بتی جلا کر دیکھتے ہیں کہ ایک صاحب گل مچھوں والے کھیس کی بکل مارے گھونسا تانے کھڑے ہیں اور ہنکار رہے ہیں ’’کس بد ذات نے بنائی ہے یہ فلم‘‘۔ یہ صاحب والدین کے نمایندے ہیں اور فرما رہے ہیں ’’ارے ہماری لڑکیاں ایسی ہوتی ہیں؟ اجنبیوں سے چھپ چھپ کر ملتی ہیں؟ ارے کچھ حیا شرم کرو۔ کیا تمہاری بہو بیٹیاں نہیں ہیں؟ ‘‘ فلمساز وعدہ کرتا ہے کہ جی اچھا یہ سین میں نکال دوں گا۔فلم آگے چلتی ہے۔ لنگڑا ولن ہیروئن پر دست درازی کرنا چاہتا ہے۔ وہ عفت کی پتلی وار خالی دیتی ہے بلکہ اس کا کتا ولن کی ٹانگ لیتا ہے۔ ولن سے کچھ اور تو ہوتا نہیں کھسیانا ہو کر ایک ڈنڈا کتے کے رسید کرتا ہے۔ چیاوں، چیاوں، چیاوں۔
دوسری طرف سے ایک صاحب ہاتھ کھڑا کرتے ہیں کہ ٹھہریے، نام پتہ لکھائیے۔آپ کون ہیں؟ میں محکمہ انسداد بے رحمی حیوانات کا نمایندہ ہوں۔ جناب آپ لوگوں نے کیا سمجھ کر اس معصوم کتے کے لاٹھی جمائی۔ لکھوائیے پروڈیوسر صاحب اپنا نام پتہ ولدیت سکونت۔ آخر پروڈیوسر یہ وعدہ کر کے چھوٹتا ہے کہ یہ سین بھی نکال دیا جائے گا۔سیٹھوں کا نمایندہ وہ تمام فقرے اور سین نکلوا دیتا ہے جن میں پیسے والوں پر طنز کا پہلو ہے کیونکہ ساری خرابیاں طبقاتی شعور ہی سے پیدا ہوتی ہیں۔ جیب کتروں کا نمایندہ اس سین پر اعتراض کرتا ہے جس میں ہیرو کی جیب کٹ جاتی ہے۔ اس کا اعتراض بھی بجا ہے۔ اس قسم کے مناظر سے ایک خاصے بڑے طبقے یعنی جیب کتروں کے متعلق لوگوں کے دلوں میں عداوت کے جذبات پیدا ہوتے ہیں۔ فلم پروڈیوسر یہ اعتراض نوٹ کرنے کے لیے جیب کی طرف ہاتھ بڑھاتا ہے تو اپنا پارکر پین غائب پاتا ہے۔ جیب کتروں کا نمایندہ پین اس کو واپس کرتے ہوئے کہتا ہے اب تو ثبوت مل گیا نہ کہ جیب کترے بھی شریف آدمی ہوتے ہیں۔
ان مراحل سے گزر کر ہم فلم کے آخری سین پر آتے ہیں اور سنسر بورڈ یہ حکم دینے کو تیار ہوتا ہے کہ یہ جو چند مناظر ندی نالوں اور چوپال کی گپ شپ اور دلہن کے سولہ سنگھار وغیرہ کے بلا اعتراض رہ گئے ہیں ان کو پاس کیا جاتا ہے کہ اتنے میں ایک صاحب آنکھوں میں لپ لپ سرمہ کاندھے پر رومال پہلے ہاتھ کھڑا کرتے ہیں، پھر خود کھڑے ہوتے ہیں اور فرماتے ہیں ’’حضرات میں ہوں انجمن اصلاح اخلاق کا نمایندہ۔ میں فلم بنانے کے کاروبار کو سراسر خلاف شرع سمجھتا ہوں۔ بند کیجیے فلم اور فلمساز دونوں کو ڈبے میں۔ کیا یہ ملک اس لیے بنایا گیا تھا کہ یہاں فلمیں بنیں؟(بشکریہ ایکسپریس)۔۔