تحریر: محمد زکریا محی الدین۔۔
مضامین کے اس سلسلے سے کسی کا متفق ہونا ضروری نہیں۔ یہ راقم کی ذاتی رائے ہے جو گذشتہ طویل تجربے اور مشاہدے کی بنیاد پر قائم ہے۔
فلم کو دنیا بھر میں میڈیا کا سب سے موثر رکن سمجھا جاتا ہے۔ پڑوسی ملک بھارت میں فلم نا صرف ایک صنعت کی حیثیت رکھتی ہے بلکہ اس کو ایک بہت بڑی تعداد دیکھنے والوں کی میسر ہے۔ 1977 سے قبل تک اور 1990 کی دہائی میں بھی فلم پاکستان میں کافی اچھی پوزیشن میں تھی۔ مگر 1977 میں جنرل ضیاء الحق کی جانب سے کئے گئے چند اقدامات کے بعد پاکستان میں فلم کو زوال کا سامنا کرنا پڑا ۔ سینماء گھروں کی بڑی تعداد ٹوٹنا شروع ہوگئی جس کی وجہ سے فلم لگانے کے لئے تھیٹر محدود ہونے لگے۔ ڈیجیٹل تھیٹر کی آمد کے بعد امید تھی کہ شائد سینما واپس اپنی بحالی کا سفر شروع کرے گا مگر بزنس ماڈل ویسا نہیں رہا جو کسی فلم کی لاگت ہی واپس آنے میں کامیاب ہوجائے۔پاکستان میں فلم پروڈکشن بنیادی طور پر لاہور سے وابستہ تھی مگر حال ہی میں ہم نے دیکھا کہ شو بزنس کی ساری سرگرمیاں لاہور سے کراچی منتقل ہو گئی جس میں فلم بھی شامل ہے۔ صورتحال یہ ہے کہ کراچی کے فلم پروڈیوسر ، ہدایتکار اور اداکار (جن میں اکثریت پنجاب سے تعلق رکھتی ہے) لالی ووڈ یعنی لاہور فلم انڈسٹری سے وابستہ پیشہ وروں کے ساتھ کام نہیں کرنا چاہتی۔اور اس کا میں ذاتی گواہ ہوں۔ اس کی سب سے بڑی وجہ لاہور فلم انڈسٹری کے پیشہ ور حضرات کی اپنی حرکتیں ہیں جس میں دھوکا فراڈ اور غیر پیشہ ورانہ رویہ شامل ہے۔ پھر لالی وڈ سے چپکے ہوئے پیشہ ور ابھی بھی اپنی جنت گم گشتہ سے باہر آنے کو تیار نہیں ہیں ۔ ان کو شائد یہ بھی پتا نہیں فلم کی کہانیوں اور فلم دیکھنے والے اب وہ نہیں رہے جن کے لئے کبھی وہ فلم بنایا کرتے تھے۔کسی ٹک ٹاکر کو ثانوی کردار میں لے کر ایک غیر حقیقی کہانی کروڑوں روپوں میں بنانے سے فلم کا کوئی تعلق نہیں ہے ہاں کسی نہ کسی کی دہاڑی ضرور لگتی ہے۔ تو اب وہ یا فلم بنا لیں یا دہاڑی لگا لیں ۔ خیر اس پر لمبی بات کرنا اس مضمون کا موضوع نہیں ہے بلکہ ہم اس زوال پر بات کرنا چاہتے ہیں جس کی وجہ سے کوئی پاکستانی فلم بشمول اس عید الاضحی پر ریلیز ہونے والی 6 یا 7 فلمیں دھڑام سے زمین بوس ہوگئیں ۔ ہم ان عوامل پر بات کرنا چاہتے ہیں کہ کراچی منتقل ہونے کے بعد بھی فلم بین فلم کیوں دیکھ نہیں رہے۔ جس قسم کا بزنس ہورہا ہے اسے افسوسناک اور پروڈیوسر کی تباہی ہی کہیں گے ۔ جو واحد فلم کامیاب ہوئی وہ بلال لاشاری کی لیجنڈ آف مولا جٹ ہے مگر اس کی کامیابی کی وجوہات نہ تو اس کی کہانی تھی جس کا سر پیر دو دفعہ دیکھنے کے بعد بھی سمجھ نہیں آیا نہ جدید ترین ٹیکنالوجی کا استعمال ہے۔ اس کی وجوہات کچھ اور ہیں۔ زیل میں ہم صرف ان وجوہات تک محدود رہیں گے جو دس سال میں بھی کسی فلم کو ہٹ کا درجہ نہ دلوانے کا سبب ہیں حالانکہ کچھ فلمیں بہت اچھی تھیں۔یہ وہ واحد میڈیم ہے
1: فلم بین بدل گیا
ڈیجیٹل سینما کی آمد کے بعد سینماء ٹکٹ کی قیمت 1000 روپے سے آگے نکل گئی اور اگر آپ فلم کے دوران کچھ کھا پی بھی لیتے ہیں تو یہ قیمت 1500 روپے کہیں نہیں گئی اس میں سینماء تک جانے کا پیٹرول بھی شامل کیا جائے تو یہ قیمت 2000 تک جا پہنچی۔ اب اگر 4 افراد فلم دیکھنے جاتے ہیں کم از کم پیٹرول ہٹا کر 6000 روپے بنتا ہے۔ اب سوچیں کہ یہ کون افورڈ کرسکتا ہے؟ کم از کم مڈل کلاس جو آبادی کا سب سے بڑا تناسب ہے تو یہ خرچ اس تفریح پر نہیں کرسکتی۔ اور فلم کا کاروبار انہی لوگوں پر ہوتا ہے جو بیچ سے نکل گئے۔ بچے وہ جن کو اشرافیہ کہہ سکتے ہیں تو وہ پاکستانی سے بہتر یا تو سینماء جا کر بھارتی فلم (جو اب بین ہے) دیکھنا پسند کریں گے یا پھر انگریزی۔ وہ پاکستانی فلم کیوں دیکھیں گے ؟ یہ سوال تو پروڈیوسر کو اپنے آپ سے کرنا چاہئے۔ پاکستانی پروڈیوسر اگر اس اکثریت کے لئے فلم بنائے بھی تو وہ دیکھنے ہی نہیں جائیں گے۔
2: سینماء گھروں کا کردار
اکثر پروڈیوسر سینماء گھروں کے کردار کا شکوہ کرتے نظر آتے ہیں بلکہ شائد کچھ عرصے قبل کچھ فلمیں سینماء مالکان نے اتار دیں تھیں تو اس پر کچھ پروڈیوسروں اور ڈسٹری بیوٹروں نے ان پر پر کافی لعن طعن کی تھی مگر جب انہیں یہ پتا چلاکہ سینماء مالکان ان کی فلمیں لگائیں گے ہی نہیں تو ان کو معافی تلافی کرنی پڑی۔ اس وقت بھی تین پروڈیوسروں بشمول وجاہت رؤف، عدنان صدیقی اور یاسر نواز نے کسی قسم کا مقدمہ دائر کیا ہوا ہے جس کا کیا فیصلہ ہو یہ اللہ جانے۔ میں یہاں خود کو سینماء مالکان کی جگہ رکھ کر سوچتا ہوں۔ سینماء مالکان ایک جگہ لئے بیٹھے ہیں جس کا بجلی کا بل ، اسٹاف کی تنخواہ، تزئین و مرمت اور لاتعداد خرچے مستقل ، روزانہ اور ماہانہ کی بنیاد پر کھڑے ہیں۔ سینماء کو یہ لاگت پوری کرنی ہے ورنہ سینماء کھول کر رکھنے کا فائدہ؟ فرض کیجئے کہ 200 سیٹ کا سینماء ہے۔ پاکستانی فلم اگر لگائی جاتی ہے تو 60 یا 70 سے زیادہ لوگ دیکھنے نہیں آتے اور شوز کے اعتبار سے یہ تعداد گھٹتی ہے بڑھتی نہیں ہے جبکہ اگر میں ایک انگریزی فلم مثال کے طور پر انڈیانا جونز کا پانچواں پارٹ لگائی جاتی ہے تو ہر شو کم از کم 150 لوگوں کو سینماء لانے میں کامیاب ہوجاتا ہے۔ اب ایک شو پاکستانی فلم کا لگ رہا ہے اور دو شو انگریزی فلم کے تو کیا کسی کا دماغ خراب ہے کہ وہ ایک شو میں نقصان کرے؟ یہ بات مان لینی چاہئے کہ جو فلم اب بن رہی ہے اس کی پیکجنگ کیسی بھی کرلیں ۔ کتنا اچھا ٹریلر اور پرومو بنا لیں کوئی بھی آپ کا میڈیا پارٹنر ہو آخر میں فلم کی کہانی چلتی ہے۔ پہلے شو کے بعد نہ پرومو نہ ٹریلر نہ میڈیا پارٹنر کام آتا ہے۔بے ربط تجربات کا نتیجہ پھر اوٹو ون کی شکل میں نکلے گا کہ چلتی فلم میں لوگ اسکرین پر پتھراو کردیں۔
جب تک یا تو فلم کا ٹکٹ کم ہو یا جو سنگل اسکرین بچی کھچی موجود ہیں کو گود لیا جائے اور فلم ان لوگوں کے لئے بنے ڈیجیٹل سینما پاکستان میں کبھی پاکستانی فلم کے پروڈیوسر کو کما کرنہیں دے سکتی۔ ماضی کے مارسٹن روڈ اور اب وحید مراد روڈ پر ایک سنگل اسکرین سینما پر ایک پشتو فلم یو ایس بی پر لگتی ہے اور اس کا کاروبار کسی بھی اردو فلم سے زیادہ ہوتا ہے اور ایسا ہی کچھ پنجاب میں سنگل سینماء ریلیز پنجابی فلم کا ہوتا ہے۔
3: فلم بزنس ماڈل سے عدم واقفیت
میرے مشاہدے میں یہ بات آئی ہے کہ پاکستان میں بیشتر پروڈیوسر فلم کے بزنس ماڈل کی بنیادی معلومات سے نابلد ہوتے ہیں جس کی وجہ سے وہ تیکینک کاروں کے ہاتھوں لٹتے بھی ہیں اور نقصان بھی اٹھاتے ہیں۔ فلم ایک ویسی ہی پراڈکٹ ہے جیسے کے کوئی بھی چائے کی پتی یا سگریٹ کا پیکٹ ہو سکتا ہے۔ اس میں بھی مینیوفیکچرر(یعنی پروڈیوسر) ،ڈسٹری بیوٹر(یعنی وہ ادارہ جو اس پراڈکٹ کو دکان پر پہنچائے گا)اور دکاندار(یعنی سینما جہاں یہ پراڈکٹ بکے گی)بنیادی اکائیاں ہوتی ہیں اور اس پراڈکٹ یعنی فلم کی فروخت میں سب کے حصے ہیں۔میں کئی ایسے فلم پروڈیوسروں سے واقف ہوں جن کو ابتداء میں یہ پتا ہی نہیں تھا کہ فلم کی ٹکٹ سیلز سے ان کو 33٪فیصد کے قریب حصہ ملے گا جس میں سے بڑا حصہ سینما اور ڈسٹری بیوٹر کمائیں گے۔ یعنی اگر کسی پروڈیوسر کی لاگت 5 کروڑ ہے تو قریبا 15 کروڑ کی ٹکٹ سیل ہوگی تو اس کی لاگت واپس آئے گی۔اب پراڈکٹ(یعنی فلم) کی لاگت میں اگر اس پراڈکٹ کی مارکیٹنگ کا اچھا بجٹ اور اس کی پیکیجنگ (پرومو ٹریلر وغیرہ) شامل نہیں ہیں یا کم ہیں تو فلم کی کامیابی کی امید کم سے کم ہونا شروع ہوجاتی ہے کیوں کہ فلم کی طرف فلم بین متوجہ کیونکر ہونگے اگر پروڈیوسر کا خیال ہے کہ ڈسٹری بیوٹر مارکیٹنگ پر خرچہ کرے گا ؟۔پھر پروڈیوسر کو بنیادی فیصلہ یہ کرنا ہوتا ہے کہ اسے یہ فلم دکھانی کس کو ہے ؟ کیا اس کی فلم کی کہانی ایسی ہے کہ وہ لوگ جو انگریزی فلمیں ذیادہ شوق سے دیکھتے ہیں وہ سینماء جا کر خرچہ کریں گے ؟ عموما پروڈیوسر سمجھتا ہے کہ میں نے پیسہ لگایا ہے لہذا فلم چلانے کی ذمہ داری کسی اور کی ہے اور جب اسے یہ احساس ہوتا ہے پلوں کے نیچے سے بہت پانی بہہ چکا ہے۔ ایک صاحب ہیں میں نام نہیں لینا چاہتا آجکل کینیڈا میں بیٹھے اپنی فلم کی ناکامی کا ذمہ دار پتا نہیں کس کس کو کہہ رہے ہیں اور ساتھ ہی اقلیتی کارڈ بھی کھیل رہے ہیں سے میں ان کی فلم کی ریلیز سے پہلے ڈیفنس کے ایک میس میں ملا تھا جہاں مجھے بلوایا گیا تھا کہ فلم کی ڈسٹریبیوشن کیسے ہوگی؟ جب ان کو پورا سسٹم سمجھا دیا تو ان کا خیال تھا کہ وہ خود کسی کی مدد سے فلم تقسیم کردیں گے ۔۔۔مجھے نہیں پتا کہ بعد میں کیا ہوا مگر فلم ان کی پہلے پتا نہیں کیوں بین ہوئی بعد میں پٹ گئی۔ اس وقت وہ سمجھنے کو تیار نہیں تھے۔ بہر حال۔ فلم کے پروڈیوسر کیونکہ واقف نہیں تھے تو پاکستان میں ریلیز ہونے والی گذشتہ دس سالوں میں علاوہ لیجنڈ آف مولا جٹ نقصان میں گئی ہیں اور یہ میرا شدید گمان ہے۔
4: ستارے جو ہر آسمان پر طلوع ہونے لگے
ایک زمانہ تھا بلکہ دنیا بھر میں یہ طریقہ ہے کہ فلمی اداکار مختلف ہوتے تھے جیسے وحید مراد، شان ، محمد علی وغیرہ اور ٹی وی کے الگ۔ کیونکہ ٹی وی کے اداکار ہر ہفتے (اور اب تو روز ہی) ٹی وی پر نظر آجاتے ہیں ۔ اب سوچیں کہ چار ڈراموں میں ہمایوں سعید نظر آرہے ہیں جو کیبل آپریٹر 300 روپے میں روز دکھا رہے ہیں اور امید کی جا رہی ہے کہ انہی ہمایوں سعید کو 1500 خرچ کر 2 گھنٹے کے لئے کسی سینماء میں بھی جا کر دیکھیں ؟ وہی ماہرہ خان ٹی وی پر وہی مہوش حیات ٹی وی پر اور وہی سینماء کے پردے پر بھی ؟؟؟میں تو ان لوگوں کی ہمت کو سلام کرتا ہوں جو ان کو دیکھنے سینماء جاتے ہیں اور واپس آکر کیبل پر ان کا ڈرامہ دیکھتے ہیں ۔ دنیا بھر میں فلمی ستارے ٹیلیوژن سے دور رہتے ہیں تاکہ ان کا کیرزما برقرار رہے۔ پاکستان میں بھی جب فلمیں بنتی تھیں تو یہی ہوتا تھا ۔ لوگ ان ستاروں کے نام پر فلم دیکھنے جاتے تھے کہ سلطان راہی کی فلم ہے یا محمد علی زیبا کی فلم ہے بلکہ شان اور ریما کی فلم ہے یا مدیحہ شاہ کی فلم ہے۔ یہ بھی ایک سبب ہے۔ مگر اس میں ہمیں یہ دیکھنا ہوگا کہ اب پاکستان میں اتنی فلمیں نہیں بنتیں جتنی ماضی میں کبھی بنتی تھیں لہذا ان ٹی وی آرٹسٹوں سے کام چلانا پڑتا ہے جن کو شائد فلم اور ٹیلی وژن میڈیم کا فرق ہی نہیں پتا وہی اداکاری کرتے دکھائی دیتے ہیں لہذا فلمی اداکار پیدا ہونے بند ہوگئے ۔ اس حوالے سے فلم انڈسٹری سے وابستہ حضرات نے بھی کوئی خاص توجہ نہیں دی کہ کوئی ایکٹنگ اکیڈمی ہی شروع کردیتے یا فلم اکیڈمی شروع کرتے کہ شائد اس مسئلہ کا کوئی حال نکلتا مگر جیسا میں نے کہا کہ فلم ایک کاروبار ہے اور کاروبار کا مطلب پرافٹ ہے۔ اس کی ترویج پر کون پیسہ اور وقت لگائے ؟
5: لاگت میں مصنوعی اضافہ
کاروبار کا پہلا اصول جو کم از کم میں نے اپنی پڑھائی میں سیکھا ہے وہ یہ کہ معیار پر سمجھوتا کئے بغیر لاگت حقیقی ہوگی تو فائدہ ہوگا۔ اگر ایک پراڈکٹ کی لاگت ہی غیر حقیقی ہو تو وہ کہاں سے پرافٹ کمانے کے قابل ہوگی ؟ مگر فلم پروڈکشن کی لاگت ایک تو ویسے بھی بڑھ گئی ہے اوپر سے ہدایتکار صاحب آسمان پر لے جاتے ہیں۔ اب اس میں وہ کما تو جاتے ہیں مگر پروڈیوسر ( جو اس کھیل سے نا بلد ہوتا ہے) مارا جاتا ہے کیونکہ اگر اس نے کسی طرح پانچ کروڑ یا اس سے زیادہ فلم پر لگا بھی دیا تو اس کی لاگت کہاں سے پوری ہوگی اس کی فلم کو کم از کم 15 سے 17 کروڑ کی سیل کرنی ہوگی جس کا ہونا ڈیجیٹل سینماء پر تو جوئے شیر لانے کے مترادف ہے۔ ملٹی اسکرین ڈیجیٹل سینماء ساری اسکرینوں پر آپ کی فلم نہیں چلاتے اور اگر ایک دن شو ٹوٹا تو آپ کی فلم تھیٹر سے باہر۔ عموما یہ سبز باغ دکھایا جاتا ہے سپانسر سے اتنے، ہوم انترٹینمنٹ کے اتنے، موسیقی کے اتنے اور ڈیجیٹل رائیٹس سے اتنے پیسے مل جائیں گے کہ لاگت کا ایک بڑا حصہ کووور ہوجائے گا۔ جس دن آپ میڈیا پارٹنر کے پاس جاتے ہیں(کیونکہ آپ کو یہ کہا گیا تھا کہ فلم کی پروموشن تو فلاں چینل کرے گا) تو پہلے وہ آپ سے یہ سارے حقوق رکھوا لے گا کیونکہ ان کا بھی ٹیلیوژن کے ائر اسپیس کی مدد میں پیسہ لگتا ہے۔ اوراب اسپانسر ہوشیار ہو گیا ہے وہ کسی ایسی فلم میں نہیں آتا جس میں اس کا فائیدہ نہ ہو۔ دوسری طرف پیداواری لاگت بہت بڑھا کر دکھائی جاتی ہے ۔ کاسٹ کے بارے میں آگے بات کریں گے۔ اب جو پراڈکٹ بنی ہے اس کی لاگت وہ نہیں جس سے لاگت ہی پوری ہوجائے تو زوال ہوگا یا نہیں ؟
6: کاسٹ کے مسائل
پیداواری لاگت میں اضافے کا ایک اور بڑا سبب اداکاروں کا بے تحاشہ بڑھا ہوا معاوضہ اور ان کی انوکھی ڈیمانڈز ( جس پر پروڈیوسر کا الگ سے خرچہ ہوتا ہے )ہیں۔ اوپر سے چار ڈراموں میں شہرت حاصل کرنے کے بعد کوئی بھی بھائی یا بہن خود کو شاہ رخ خان اور کرینا کپور سے نیچے تو سمجھنے کو راضی ہی نہیں ہوتا۔ ایک موصوف کی ابھی عید الاضحی پر پہلی فلم ریلیز ہو کر ڈبے میں جا چکی ہے۔ ان سےایک سینیر اور میرے حساب سے انتہائی پیشہ ور ہدایتکار نے جن کا تعلق پنجاب سے ہے نے ایک فلم آفر کی تو موصوف (جو بنیادی ڈراموں کے اداکار ہیں اور ان کی پہلی فلم لگی ہے) نے فرمایا کہ وہ کام بھول چکے ہونگے؟؟؟وہ اداکار جو کراچی میں ہیں بہلے ان کا پیچھے سے تعلق گوالمنڈی سے ہو لاہور کے منجھے ہوئے ہدایتکاروں کے ساتھ کام کرنے کو راضی نہیں۔ ہوسکتا ہے اس کی وجہ یہ ہو کہ یہ ایک منجھےہوئے فلمی ہدایتکار ہیں جن پر ایسے اداکار اپنی اسٹار پاور نہ دکھا سکیں بنسبت کراچی کے فلمی ہدایتکاروں کے جو فلموں کے نام پر ڈرامے بڑے پردے پر دکھا رہے ہیں۔
فلم پر میری تحریر تھوڑی سی لمبی ہوگئی اور میں نے سرسری سا ذکر کیا کہ پاکستانی فلم کیوں زوال کا شکار ہوئی۔ سوال یہ کھڑا ہوتا ہے کہ کیا اس کی بحالی کی کوئی امید ہے؟ تو اس کے لئے کم از کم میں خاصہ نا امید ہوں۔ اس وقت اگر مارکیٹ ہے تو وہ علاقائی فلموں کی ہے کیونکہ جس قسم کی اردو فلمیں بن رہی ہیں اس سے بہتر ہے کہ نہ بنیں ۔ اس تلخ تحریر کے لئے میں معذرت خواہ ہوں اور مجھے یقین ہے کہ میرے چند چاہنے والے اسے اچھالیں گے وہاں جہاں ان کو میرا نام سنائی دے گا ۔ تو اچھالیں ۔کیا فرق پڑتا ہے۔۔(محمد ذکریا محی الدین)۔۔