pemra ka jhukao malikan ki taraf

ایف آئی اے میں صحافیوں کے خلاف تیس درخواستیں۔۔

اسلام آباد ہائی کورٹ نے پیکا ایکٹ کے تحت اختیارات کے غلط استعمال کے کیس میں ایف آئی اے کو ایس او پیز تیار کر کے ان پر عمل درآمد کرکے رپورٹ جمع کرانے کا حکم دیا ہے اور صحافیوں کی نمائندہ تنظیم پی ایف یو جے سمیت تمام سٹیک ہولڈرز سے مشاورت کی بھی ہدایت کی ہے۔ ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے بتایا کہ پیکا ایکٹ کے تحت 22 ہزار 877درخواستیں موصول ہوئیں جن میں سے 30 صحافیوں کے خلاف تھیں۔ جمعہ کو اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ عدالت کو ایسا تاثر مل رہا ہے کہ ایف آئی اے سیلکٹیو کارروائی کررہی ہے، ایف آئی کا دفتر ایک تھانہ ہے جہاں آپ بلا لیتے ہیں، یہ بھی دیکھنے میں آیا ہے کہ حکومتی اراکین کی شکایت پر ایف آئی اے فوری کارروائی کرتا ہے جبکہ عام آدمی کی شکایت پر کارروائی نہیں ہوتی، ایف آئی اے کا خاص خیالات رکھنے والوں کے خلاف کارروائی کرنا عجیب سی بات ہے۔ ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا کہ ایف آئی اے نے نوٹس جاری کرنے کے لئے ایس او پیز بنائے ہیں، ہم بھی چاہتے ہیں کہ یہ تاثر ختم ہو کہ صرف صحافیوں کے خلاف کارروائی ہوتی ہے۔

اسلام آباد ہائی کورٹ نے کہا ہے کہ ایف آئی اے کی جانب سے دفتر میں بلانا بھی ہراسیت ہے ،جمعہ کو اسلام آباد ہائی کورٹ میں ایف آئی اے کی جانب سے اختیارات کے بے جا استعمال کے خلاف درخواست کی سماعت ہوئی۔ چیف جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیئے کہ یہ تاثر کیوں ہے کہ ایف آئی اے مخصوص لوگوں کے خلاف کارروائی کرتی ہے ؟ ابھی تک پیکا ایکٹ کے تحت کتنی شکایات درج ہوئیں۔ایڈیشنل اٹارنی جنرل قاسم ودود نے بتایا کہ سائبر کرائم ایکٹ کے تحت بائیس ہزار 8 سو 77 شکایات درج ہوئی ہیں ، 30 صحافیوں کے خلاف سیکشن بیس کے تحت شکایات درج ہوئیں۔عدالت نے کہا یہ تاثر بھی آیا ہے کہ جو حکومت میں ہیں صرف ان کی شکایات سنی جاتی ہیں،بادی النظر میں اس طرح کی کارروائی ایف آئی اے کے اختیارات کا غلط استعمال ہے ،اگر کسی کی رائے کی وجہ سے ایف آئی اے نوٹس کرتی ہے تو اس کے بہت گہرے اثرات ہوتے ہیں، صرف ایف آئی اے کی جانب سے دفتر میں بلانا بھی ہراسیت ہوتی ہے ، دفتر تو ایک تھانہ ہے ، مہذب سوسائٹی میں ایسا نہیں ہوتا ، ماحولیات کے معاملے میں جس طرح ایف آئی اے ایک شہری پر چڑھ دوڑی تھی ایسا تو نہیں ہوتا،انوائرنمنٹل معاملے پر فوجداری کارروائی کیسے ہو سکتی ہے ؟،چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ انوائرنمنٹ معاملے پر جس ایف آئی اے کے افسر نے یہ نوٹس کیا، کیوں نہ اس پر جرمانہ عائد کیا جائے ، ایف آئی اے صرف اس وقت کارروائی کر سکتی ہے جب نفرت پر مبنی گفتگو ہو، اختلاف رائے سے گھبرانا تو نہیں چاہیے ،زیادہ سچ بولا جائے گا تو معاشرہ بہتر ہو جائے گا، یہ خوش آئند بات ہے کہ صحافیوں کے حوالے سے کوئی نئی پٹیشن نہیں آئی۔عدالت نے تفصیلی رپورٹ جمع کرانے کا حکم دیتے ہوئے سماعت ملتوی کردی۔

Facebook Comments

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں