تحریر : علی عمران جونیئر
دوستو، اگر ہم اپنی زندگی کا مشاہدہ کریں تو اپنی دلچسپی سے ہٹ کر ہر چیز ہمیں فضول یات لگے گی، مثال کے طور پر ہمارے بچپن کے ایک دوست کو مچھلی کے شکار کا بہت شوق ہے، ہر ہفتے بڑے اہتمام سے سمندر اور میٹھے پانی جاتے ہیں، لانچ پر سوار ہوکر شکار کرتے ہیں، دو سے تین دن بھی لگادیتے ہیں، خوب مچھلیاں پکڑتے ہیں، ہمیں بھی کھلاتے ہیں ، لیکن حلفیہ آپ کو کہتے ہیں ہر بار ان کی پیشکش کے باوجود ہم کبھی مچھلی کے شکار پر نہیں گئے، کیوں کہ ہمارے نزدیک یہ ایک فضول کام ہے، قیمتی وقت برباد ہوتا ہے، لیکن ہمارے دوست کے لیے یہ ساری ایکٹیویٹی اس کے ایمان کا حصہ ہے، شاید یہی وجہ ہے کہ ہر بار اسے اس فضول کام سے باز رہنے کا کہتے ہیں وہ ہر بار ہماری بات مذاق میں اڑادیتا ہے۔۔ہمارے کہنے کا مطلب یہ ہے کہ آپ کو جو چیز پسند نہ آئے وہ آپ کے نزدیک فضول شمار کی جائے گی۔۔ اسی طرح جو کام ہمیں پسند ہے ،شاید آپ کو ناپسند ہو، ہم جو کام شوق سے کرتے ہیں ممکن ہے وہی کام آپ کے لیے مچھلی کے شکار کی طرح ناپسندیدہ ہو۔۔ بس زندگی کا پہیہ اسی طرح گھومتارہتا ہے۔ آپ کوٹینڈے پسند نہیں ،لیکن ماں نے پکائے ہیں تو سب گھروالوں کو لازمی کھانے ہیں۔ بس تو سمجھ لیں، آپ کو بھی ہماری اوٹ پٹانگ باتیں برداشت کرنی ہوں گی جس کا آج کے کالم میں کوئی سرپیر نہیں ہوگا۔۔ کراچی میںبارشوں کا سلسلہ چل رہا ہے، ان سطور کے تحریر کیے جانے کے دوران بھی بارش ہورہی ہے اور حسب روایت بجلی غائب ہے۔۔کراچی جو کہ پہلے ہی گندگی اور کچرے کا ڈھیر بناہواہے، تعفن اور مچھروں نے زندگی عذاب کرکے رکھی ہوئی ہے۔ شہرقائد میں مچھروں کا یہ حال ہے کہ ۔۔ایک صاحب رات کو مچھر مار کوائل جلا کر آرام سے میٹھی نیند سو رہے تھے ۔۔اچانک اسے مچھر کی مخصوص بھنبھناہٹ سنائی دی۔وہ حیران ہوا کہ مچھر مار کوائل کے باوجود یہ کیسے زندہ ہے۔۔اس نے عالم غنودگی میں جھپٹ کر مچھر کو مٹھی میں بند کر لیا۔۔ابھی وہ اسے مارنے ہی والا تھا کہ مچھر نے گڑگڑا کر کہا۔۔حضور میری کیا مجال کہ میںآپ کی نیند خراب کرتا وہ تو میں آپ کو یہ بتانے آیا تھاکہ آپ کا مچھر مار کوائل ختم ہو گیا ہے۔۔۔تاریخ گواہ ہے کہ جب جب شدید بارش میں بجلی کی عدم دستیابی کی وجہ سے موبائل نے ساتھ چھوڑا ہے تب تب’’ لڈو‘‘ کے گیم نے ہمیں سنبھالا ہے ۔۔بارش ہو اور بجلی نہ جائے ایسا ممکن ہی نہیں، کراچی میں بارش کا پہلا قطرہ زمین پر گرتا نہیں، لائٹ ایسے غائب ہوجاتی ہے جیسے خوشحالی غریب سے روٹھ کر کہیں دور جاچکی ہے۔ حالات کو پیش نظر رکھتے ہوئے ہم نے کچھ عرصہ پہلے ہی فیصلہ کرلیا تھا کہ۔۔ آئندہ جب بھی ذرا سی بوندا باندی یا بارش ہوگی ،ہم اپنے گھر کے پنکھے اور لائٹس خود ہی آف کردیاکریں گے، بندہ کب تک کے الیکٹرک کا احسان لیتا رہے؟؟ اس بات میں قطعی دو رائے نہیں کہ کراچی کا کوئی بھی عاقل ، بالغ جو کسی بھی فرقہ، مذہب، مسلک،قومیت سے تعلق رکھتا ہو،ممکن ہی نہیں کہ وہ کے الیکٹرک پر لعنت نہ بھیجے،اس نے کہا کہ مجھے لاکھوں کی کوئی چیز دو ہم ’’لکھ دی لعنت‘‘ دے کر آ گئے۔۔ مذاق مذاق میں کچھ حالات حاضرہ پرباتوں کے بعد اب اوٹ پٹانگ باتوں کا سلسلہ شروع کرتے ہیں، ایک صاحب نے اپنے نوکر سے کہا، میری اجازت کے بغیر کبھی کوئی چیز نہ اٹھایا کرو ۔۔اگلے ہی دن نوکر اپنے صاحب کے پاس آکر بڑے ادب سے کہنے لگا۔۔حضور چھوٹے صاحب گٹر میں گر گئے ہیں آپ کی اجازت ہو تو اٹھا لاوّں۔۔کراچی کی بات ہورہی تھی، یہاں ایک سے بڑھ کر ایک فنکار پڑا ہے، ایک دندان ساز پر سلوگن پڑھا تو دم بہ خود رہ گیا,لکھا تھا۔۔دانت کوئی بھی توڑے لگا ہم دیں گے۔۔ہمارے پیارے دوست کا کہنا ہے کہ۔۔بڑے بڑے ’’چول کام‘‘ کیئے ہیں لیکن کبھی کسی لڑکی کو السلام علیکم کا میسج کرکے یہ نہیں کہا سلام کا جواب دینا ہر مسلمان پر فرض ہے۔۔ہمارے پیارے دوست کے بچپن کا واقعہ ہے، ٹیچر نے انہیں کہا، اگر کل سبق یاد نہ ہوا تو میں مرغا بناؤں گی !ہمارے پیارے دوست نے برجستہ جواب دیا۔۔: ٹھیک ہے ،کولڈ ڈرنک میں لے آؤں گا۔۔ہمارے پیارے دوست کا کہنا ہے۔۔سنا ہے محبت اندھی ہوتی ہے اور مجھے تو نظر کا چشمہ لگا ہواہے۔۔ہمارے اکثر دوست بھی ہماری ہی طرح اندر سے فیصل آبادی ہیں۔۔ہمارے ایک دوست نے پوچھا جب آفس جاتا ہوں شدید ڈپریشن کا شکار ہوجاتا ہوں اس سے بچنے کا کوئی طریقہ تو بتادو۔۔ اسے جواب دیا کہ آفس سے بچو ، نہ آفس جاؤ گے نہ ڈپریشن ہوگا۔۔باباجی فرماتے ہیں۔۔بچپن میں ہم گھروں کی گھنٹیاں بجا کر بھاگ جایا کرتے تھے۔آج پتا چلا کہ دراصل وہ تو’’سرجیکل اسٹرائکس‘‘ ہوا کرتی تھیں۔۔باباجی سے جب ان کی زوجہ ماجدہ نے کہا کہ۔ ۔ ۔ اچھا یہ بتائیں آج کھانا کیسا بناتھا؟؟ باباجی نے ترنت جواب دیا۔۔ تم بھی نا بس لڑنے کا کوئی نا کوئی بہانہ تلاش کرتی رہتی ہو۔۔باباجی کا ہی فرمان عالی شان ہے کہ۔۔اگر آپ کی بیوی آپ پر شک کرتی ہے تو دوسری شادی کرکے شک کو حقیقت میں بدل دیں، اور پھر دوسری سے پوچھیں۔۔تینوں وی کوئی شک ہے؟۔۔ دونوں بر سر روزگار میاں بیوی کے تعلقات سرد مہری اور جمود کا شکار تھے، بیوی نے سمجھداری کا مظاہرہ کرتے ہوئے ایک خوبصورت سا تحفہ پیک کرایا، صبح کام پر جانے سے پہلے اس پر۔۔سلام صبح لکھااور خاوند کے سرہانے رکھ کر چلی گئی۔۔ خاوند کی آنکھ کھلی، اس نے پیکٹ دیکھا تو بیوی کو فون کرکے کہا: او ڈنگر دی دھیا، اتنی محنت سے کسی ‘سلام صبح’ کے لیے تحفہ خریدا اور پیک کرا لائی تھی اور اب اسے ادھر گھرپر ہی بھول کر چلی گئی ہو۔۔اسے کہتے ہیں محبت کا جاہلانہ جواب۔۔ویسے عورت ذات کا بھی جواب نہیں،اس کا کوئی توڑ اور کوئی جوڑ نہیں۔۔دو عورتوں کی لڑائی ہو اور آپ دونوں سے اس جھگڑے کی روداد الگ الگ سنیں آپ کو دونوں سچی اور بے قصور لگیں گی۔۔خواتین اور شاپنگ لازم و ملزوم ہیں، 2 ہزار کا سوٹ خریدنے کی فضول خرچی کو بیلنس کرنے کا واحد طریقہ ان کے نزدیک صرف یہ ہوتا ہے کہ رکشہ والے سے کرایہ میں بیس روپے کم کرالیے جائیں۔۔ باباجی فرماتے ہیں۔۔ اپنی زوجہ ماجدہ سے کبھی ادھار مت لینا،اپنا ذاتی تجربہ شیئر کرتے ہوئے مزید کہتے ہیں کہ۔۔اپنی بیوی سے چھ ماہ قبل دوہزار روپے ادھار لیے تھے، اب تک سترہ ہزار روپے دے چکا ہوں ،ابھی بھی ڈھائی ہزارروپے بقایا ہیں۔۔ اور اب چلتے چلتے آخری بات۔۔سب سے زیادہ ناقدری ہم ان رشتوں کی کرتے ہیں،جن کے ساتھ ایک چھت تلے رہتے ہیں۔ خوش رہیں اور خوشیاں بانٹیں۔۔