تحریر: ارشاد بھٹی۔۔
مجھے اچھی طرح یاد جب فواد چوہدری کو وزارت اطلاعات ونشریات سے وزیر سائنس وٹیکنالوجی بنایا گیا تو اس کے چند دن بعد میں کپتان سے ملا، اس تبدیلی کی وجہ پوچھی، جو وجہ انہوں نے بتائی وہ عجیب وغریب، لکھ یا بتا نہیں سکتا کیونکہ ملاقات ’آف دا ریکارڈ ‘ تھی، مگر مجھے اس دن بھی ایسے لگا کہ وجہ وہ نہیں تھی جو کپتان نے بتائی، اصل وجہ کچھ اور تھی، جو کپتان چھپا گئے،بلاشبہ فواد چوہدری کو دوبارہ وزیراطلاعات ونشریات بنانا اچھا فیصلہ مگر سوال پھر وہی، انہیں وزیر اطلاعات بنانا تھا تو ہٹایا کیوں، چند دن پہلے فرخ حبیب جب وزیرمملکت کا حلف اُٹھا رہے تھے تب یہ کپتان کے پونے 3سالہ اقتدار میں کابینہ میں ساتواں ردوبدل تھا، فرخ حبیب کو وزیر بنانا اچھا فیصلہ، پی ٹی آئی کا اصل چہرہ، نوجوان، فیصل آباد کو نمائندگی ملی، مگر سوال یہ، کپتان کی کتنی تقرریاں جو صحیح اور میرٹ پر، ہم پنجاب، کے پی، جی بی کی بات نہیں کرتے، ہم بیوروکریٹ تقرریوں کو بھی چھوڑ دیتے ہیں، ہم صرف مرکزی حکومت پر ایک نظرمار لیتے ہیں، 17روپے کلو ٹماٹر بیچنے والے حفیظ شیخ سینیٹر کا انتخاب ہارے، کپتان سے ملے، کہا، اجازت دیں، استعفیٰ قبول کریں، کپتان بولے، نہیں، کام جاری رکھو، ملک وقوم کو تمہاری ضرورت، مگر دو تین ہفتوں بعد ہی حفیظ شیخ کو یوں فارغ کیا کہ الوداعی ملاقات نہ الوداعی چائے کا کپ، سوال یہ، جب حفیظ شیخ استعفیٰ دے رہے تھے تب انہیں روکا کیوں،جب وہ رک گئے تب فارغ کیوں کیا؟
سوال یہ، اعظم سواتی نے کیا تیر چلائے کہ انہیں انسداد منشیات اورسائنس اینڈ ٹیکنالوجی کی وزارتوں کے بعد ریلوے کی وزارت تھمادی گئی، اعظم سواتی سے سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد وزارت لی گئی تھی، ان کیخلاف جے آئی ٹی رپورٹیں، ان کا ون بلین ڈالر نوٹ قصہ الگ، ان کی انسداد منشیات، سائنس اینڈ ٹیکنالوجی وزارتوں میں کارکردگی سب کے سامنے، ریلوے سے یاد آیا، شیخ رشید نے ریلوے میں کیا تلواریں چلائیں کہ ترقی دے کر وزیرداخلہ بنادیا گیا، شیخ صاحب کے دور میں 80کے قریب حادثے ہوئے، وقت پر ریلوے پھاٹک کھلنے، بند نہ ہونے کے چکر میں بیسیوں جانیں چلی گئیں، مگر کوئی انکوائری جو سرے چڑھی ہو، کسی ذمہ دار کو سزا ہوئی ہو، جب تک شیخ رشید وزیر ریلوے رہے، ہر حادثے پر سب کپتان کو یاد دلاتے رہے کہ آپ ہی کہا کرتے تھے کہ جب غفلت یا لاپروائی پر کوئی حادثہ ہو جائے تو متعلقہ وزیر کو مستعفی ہوجانا چاہیے، اب تو آپ خود وزیراعظم، اب شیخ صاحب سے استعفیٰ لیں، کپتان نے شیخ صاحب سے استعفیٰ لینے کی بجائے الٹا ان کی خفیہ ’بہترین کارکردگی ‘پر انہیں وزیر داخلہ بنادیا، بحیثیت وزیر داخلہ وہ کیا چاند چڑھا چکے، وہ سب کے سامنے۔
سوال یہ، وزارت پانی وبجلی میں عمرایوب نے کیا میدان مارے کہ انہیں فارغ کرنے کی بجائے اقتصادی امور کا وزیر بنادیا گیا، یہ عمر ایوب ہی تھے جب وزیر بنے تو سرکلر ڈیٹ (گردشی قرضہ) ہزار ارب سے نیچے تھا، یہ عمرایوب ہی تھے جنہوں نے فرمایا، دسمبر 2020 تک گردشی قرضہ ختم ہوجائے گا، یہ عمر ایوب ہی جب انہیں پانی وبجلی کی وزارت سے ہٹا کر دوسری وزارت تھمائی گئی تب گردشی قرضہ 25سو ارب کے لگ بھگ ہو چکا، ان کے دور میں جہاں بجلی چوری نہ رک سکی، بجلی نقصانات زیادہ ہوئے،وہاں بجلی واجبات ریکوری بھی کم ہوئی، اس کے علاوہ عمر ایوب کی غلطیاں، ایک وائٹ پیپر آسکتا ہے، مگر عمر ایوب کو فارغ کرنے کی بجائے کپتان نے ایک وزارت سے اتار کر دوسری وزارت پر سوار کرادیا، کیوں ؟ سوال یہ، شوگر کمیشن اور نیب انکوائری والے خسرو بختیار نے چوری چھپے ایسا کیا کردیا کہ پلاننگ ڈویژن سے فوڈ سکیورٹی اور وہاں سے صنعت وپیداوار کی وزارت جا پہنچے، نئے صوبے کے نام پر ووٹ لینے والے خسرو بختیار نے پونے تین سالوں میں بھولے سے بھی نئے صوبے کا نام نہیں لیا، بحیثیت کابینہ ممبر پونے 3 سالہ کارکردگی کیا، یہ کپتان کے علاوہ کسی کے علم میں نہیں، سوال یہ، وہ شوکت ترین جو فرما رہے کہ اگر جی ڈی پی گروتھ 5 فیصد تک نہ گئی تو ملک کا ﷲ حافظ، یہ کس پرفارمنس پر وزیر خزانہ بن گئے، اگر انہیں وزیرخزانہ بنانا تھا تو حماد اظہر کو کیوں وزیر خزانہ بنایا گیا، اگر حماد اظہر کو وزیرخزانہ بنانا تھا تو 14دن بعد انہیں ہٹایا کیوں گیا، اگر 14دنوں بعد شوکت ترین کو وزیرخزانہ بنانا تھا تو حماد اظہر کو 14دن کیلئے وزیر بنانے کی بجائے 14دن وزارت خزانہ خالی رکھ کر شوکت ترین کا انتظار کر لیتے۔
سوال یہ، فردوس عاشق اعوان کو مشیر اطلاعات ونشریات سے کیوں ہٹایا گیا اور ہٹایا بھی ایسے کہ ہٹائے جانے والے دن وہ پی ایم سیکرٹریٹ میں بیٹھی کپتان سے ملنے کیلئے اصرار کررہی تھیں جبکہ اعظم خان، شہزاد اکبر استعفیٰ مانگ رہے تھے، تلخ کلامی، ڈاکٹر صاحبہ فارغ، سوال یہ اگر انہیں بری پرفارمنس، کرپشن پر ہٹایا گیا تو پھر پنجاب میں دوبارہ کیوں لگایا گیا، اگر پرفارمنس اچھی، کرپشن الزامات غلط تو انہیں ہٹایا کیوں گیا، کپتان کی مستقل مزاجی دیکھئے، وزارت اطلاعات میں فواد چوہدری 8ماہ، فردوس عاشق اعوان ایک سال اور شبلی فراز 11ماہ رہے، گزرے پونے 3سالوں میں اقتصادی امور وزارت میں پانچ بار تبدیلی آئی، خزانہ، اطلاعات ونشریات، انسداد منشیات وزارتوں میں چار چار بار ردوبدل ہوئے، پارلیمانی امور وزارت میں چار بار،داخلہ، سائنس اینڈ ٹیکنالوجی وزارتوں میں 3تین بار تبدیلیاں ہوچکیں، سوال یہ، اگر عامر کیانی نے کچھ نہیں کیا تو انہیں ہٹایا کیوں گیا، اگر کچھ کیا تو انہیں پارٹی کا سیکرٹری جنرل کیوں بنایا گیا، اب تک ان کیخلاف کارروائی کیوں نہیں ہوئی، سوال یہ، مشیر صحت ظفر مرزا کو کیوں ہٹایا گیا، اگر کچھ ایسا ویسا کیا تو اب تک کارروائی کیوں نہیں ہوئی، اگر کچھ ایسا ویسا نہیں کیا تو یوں اچانک کیوں ہٹایا، سوال یہ، اگر ندیم بابر پر سب الزامات سچے تو ابھی تک انکا کیس ایف آئی اے، نیب کو کیوں نہیں بھیجا گیا، سوال یہ، پی آئی اے پر خود کش حملہ کرنے والے غلام سرور ابھی تک وزیر کیوں، سوال یہ، جن وزیروں کا شوگر کمیشن میں نام آچکا، وہ ابھی تک اپنے عہدوں پر کیوں، سوال یہ، 50وزیروں، مشیروں میں کتنے ایسے جن کی کارکردگی ایسی کہ وزیر رکھا جائے، سوال یہ، جن کی کارکردگی بری وہ وزیر کیوں، سوال ہی سوال، اور کسی سوال کا کوئی جواب نہیں، واہ کپتان تیرے فیصلے، تیریاں توہی جانے۔(بشکریہ جنگ)