mein kiske hath mein apna lahu talash karu | Umair Ali Anjum

فصاحت محی الدین الودع۔۔۔۔۔

تحریر: عمیر علی انجم۔۔

پھر فصاحت محی الدین بھی اسی بارگارہ میں پیش ہوگئے جس میں ایک دن ہم سب کو پیش ہونا ہے ۔اللہ تعالیٰ ان کی منزلیں آسان فرمائے کہ یہاں اس جہاں میں تو ہم نے قدم قدم پر ان کے لیے دشواریوں کے سامان پیدا کردیئے تھے ۔کل جنگ کی ویب سائٹ پر جب فصاحت بھائی کی تصویر کے ساتھ ان کے انتقال کی خبر دیکھی تو بے ساختہ استاد قابل اجمیری یاد آگئے ۔۔لیاقت آباد کی سڑک پر سائیکلوں پر پنکچر لگانے والا شاعر بے بدل بھی کہتا تھا کہ ” وہ جو گرائے تھے دو آنسو میرے مرنے کے بعد۔۔مجھ پر گر گراتے تو جی اٹھتا میں مرجانے کے بعد”۔ہمارا المیہ یہی ہے کہ ہمیں ہر انسان کی قدر ا س وقت یاد آتی ہے جب وہ اس دنیا سے گذر جاتا ہے ۔فصاحت بھائی اور میرا تعلق کوئی دوستانہ تو نہیں تھا ۔میں خادم تو وہ مخدوم تھے ۔میں زمین تو وہ آسمان تھے ۔۔شاید میں جب پیدا بھی نہیں ہوا تھا تو وہ اس وقت بھی صحافی تھے ۔۔ان کا شمار انگریزی زبان کے ان چند صحافیوں میں ہوتا تھا جنہوں نے شعبہ صحافت کو ایک اعتبار بخشا تھا ۔وہ ایک ”حقیقی” آدمی تھا اس لیے ”بونوں” کی اس دنیا میں اس کی وہ قدر نہیں ہوسکی جس کا وہ حق دار تھا ۔

فصاحت بھائی کے دوست بتاتے ہیں کہ انہوں نے ساری زندگی اپنے ماں باپ کی بہت خدمت کی ۔اپنے والد کے لیے وہ امریکا بھی چھوڑ کر آگئے تھے ۔ایک حساس انسان کا مسئلہ ہی یہی ہے کہ وہ سود و زیاں سے بالاتر ہو کر فیصلے کرتا ہے ۔اس کے نفع و نقصان کا پیمانہ ایک عام شخص کے پیمانے سے مختلف ہوتا ہے ۔آپ کو بظاہر ایسے لوگ بے وقوف نظر آئیں گے لیکن میری بات کا یقین کریں جینے کا اصل ہنر ایسے ہی لوگ جانتے ہیں ۔فصاحت بھائی بھی جینے کا ہنر جانتے تھے لیکن ”بونوں” کی دنیا میں کڑھتے ضرور تھے ۔صاحب وہ صحافی جس کا لیڈر کبھی برنا صاحب ،عثمانی صاحب اور اے آر رحمن ایسے لوگ رہے ہوں اس کے سامنے کچھ مداری اپنے آپ کو لیڈر کہنے لگیں تو آپ  خوداندازہ لگالیں کہ اس کا کیا حال ہوتا ہوگا ۔۔۔جبکہ ان کے ادارے نے بھی ان کے ساتھ کوئی بہتر سلوک نہیں کیا ۔لوگ پوچھ رہے ہیں کہ ایک ورزشی آدمی کو فالج کا اٹیک کیسے ہوگیا ۔لوگوں کو ان کی ورزش تو نظر آرہی ہے لیکن ایک طویل عرصے سے وہ جس ذہنی کرب سے گذر رہے تھے اس سے سب لاعلم تھے جن میں ہمارے نام نہاد رہنما بھی شامل ہیں ۔۔۔۔۔سنا ہے کہ ان کے واجبات آج تک نہیں مل سکے ہیں ۔۔۔ان کی قبر پر مگر مچھ کے آنسو بہانے والے نام نہاد رہنماؤں سے بس اتنی عرض ہے کہ ڈرامے نہ کریں ۔۔۔۔فصاحت بھائی کی فیملی کو ان کا حق دلائیں ۔۔۔۔ کل آپ کو بھی پاک پروردگار کی بارگاہ میں پیش ہونا ہے ۔۔۔۔اور یہ تو آپ کو بھی علم ہے کہ وہاں نہ تعلقات کام آئیں گے ۔۔۔۔اور نہ ہی صدر اور سیکرٹری کے عہدے ۔۔۔۔۔مزید صحافیوں کو فالج کے حملوں سے بچانے کے لیے قدم بڑھائیں نہیں تو صحافیوں کے دم سے آباد کیے جانے والے اپنے محلوں میں اس وقت کا انتظار کریں جب رب آپ کی رسی کھینچے گا ۔اللہ تعالیٰ فصاحت بھائی کی مغفرت فرمائیں۔۔۔۔۔(عمیر علی انجم)۔۔

ماہرہ خان نے آخرکار خاموشی توڑ دی۔۔
social media marketing
Facebook Comments

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں