تحریر : علی عمران جونیئر
دوستو،باباجی ایک عالمی شخصیت ہیں،کیوں کہ ان کی باتیں’’ہند،سندھ‘‘ میں شوق سے پڑھی جاتی ہیں۔۔ آپ احباب یقین نہیں کریں گے کہ جتنی باتیں ہم ان کے حوالے سے مارکیٹ میں شیئر کردیتے ہیں اس سے کئی گنا زیادہ باتیں ’’سنسر‘‘ کے باعث ہم ’’پی ‘‘ جاتے ہیں۔۔ باباجی کی ایک عادت پہلے بھی آپ کو بتاچکے ہیں کہ جب وہ شدید غصے میں ہوں تو فوری طور پر پنجابی زبان بولنا شروع کردیتے ہیں اور ناقابل اشاعت گالیوں کا سلسلہ بھی ہر جملے کے ساتھ نکلتا رہتا ہے۔۔ باباجی کی ’’بیٹھک‘‘ میں روزانہ رات کو بیٹھک لگتی ہے تو باباجی کی زوجہ ماجدہ بالکل اپنے بچوں کی طرح ہمارے کھانے پینے کا خیال رکھتی ہیں۔ چائے کے کپوں سے دھواں اٹھ رہا ہوتا ہے اور چائے سے لبریز تھرماس بھی ٹیبل پر دھرا ہوتا ہے، جس کو چائے مطلوب ہووہ مزید نکال کر پی سکتا ہے۔۔ جب کہ باباجی کی اہلیہ کی جانب سے مختلف بسکٹس ، فروٹس، ڈرائی فروٹس اور سپاریاں، چاکلیٹس وغیرہ الگ ہوتی ہیں۔۔ جس کا جی چاہے وہ اپنا شوق پورا کرسکتا ہے۔۔ایک دن ہم نے باباجی سے ویسے ہی پوچھ لیا کہ۔۔ باباجی ہم تو روزانہ ہی آپ کے پاس آتے ہیں، ہم نے کہیں پڑھا تھا کہ قدر کھودیتا ہے روزکا آنا جانا، کہیں ایسا نہ ہو کہ کھانے پینے کا یہ سلسلہ اچانک بند ہوجائے ہمارا دل ٹوٹ جائے گا۔۔ باباجی ہماری بات سن کر مسکرائے اور کہنے لگے۔۔تم لوگ برسوں سے آرہے ہو، کسی ایک دن بھی تم لوگوں کو کسی چیز کی کمی محسوس ہوئی۔۔ پگلے، مہمان تو اللہ کی رحمت ہوتے ہیں۔۔ مہمانوں کا رزق ان کے آنے سے پہلے ہی میزبان کے پاس پہنچ جاتا ہے، اس لئے یہ سب تمہارا نصیب ہے،میں گناہگار بندہ تو صرف وسیلہ ہی ہوں۔۔
باباجی سے ہم اگلا سوال کرنے ہی والے تھے وہ تیوریاں چڑھا کر بولے۔۔صاحب،جتنا تمہارا ٹوٹل دماغ ہے،اتنا تو ہمارا اکثر خراب رہتا ہے۔۔یعنی باباجی چاہ رہے تھے کہ ہم موضوع تبدیل کردیں۔۔ہم نے باباجی کی نیت کو بھانپتے ہوئے سوال پوچھا کہ۔۔باباجی ۔۔پشاور میں جو سانحہ ہوا،آپ کو کیا لگتا ہے اس کے پیچھے کون ہوسکتا ہے؟؟ باباجی کہنے لگے۔۔جن کو ہم سے یعنی ہمارے ملک سے تکلیف پہنچ رہی ہے یہ سب وہی لوگ ہیں، ہمارے دشمن چاہتے ہیں کہ یہاں پھر سے فرقہ وارانہ فسادات شروع ہوجائیں۔۔ ابھی انہوں نے شیعہ مسجد کو نشانہ بنایا کچھ بعید نہیں اگلا ٹارگٹ کوئی سنی مسجد یا مدرسہ ہو۔۔ ان حالات میں ہمیں جذباتیت سے گریز کرتے ہوئے، ہوش کے ناخن لینا ہونگے، ہم حالت جنگ میں ہیں اور یہ معاملہ ابھی کافی دور تک جائے گا۔۔ابھی باباجی کی بات جاری تھی کہ ہمارے پیارے دوست نے درمیان میں لقمہ دیا۔۔وقت وقت کی بات ہے،پہلے پاکستانی کہتے تھے سب کچھ امریکہ کرا رہا ہے، اب امریکی کہتے ہیں سب کچھ پاکستان کرا رہا ہے۔۔ باباجی نے پیارے دوست کی بات سے اتفاق کرتے ہوئے کہا، ہاں اگر ایسا واقعہ باہر کسی فرنگی ملک میں ہوتا تو اس کا براہ راست الزام پاکستان پر ہی عائد کیا جاتا۔۔ ہم نے موضوع پھر تبدیل کرنے کی ٹھانی اور بلاول بھٹو کے لانگ مارچ کے حوالے سے بات شروع کرتے ہوئے اچانک باباجی سے مریم نواز کے سیاسی مستقبل سے متعلق سوال پوچھ لیا۔۔ باباجی کہنے لگے۔۔ عورت سیاست میں اس لئے بھی کامیاب نہیں ہوتی کہ عورت بدصورت ہو تو مرد ووٹ نہیں دیتے۔۔ اور اگر خوبصورت ہو تو عورتیں ووٹ نہیں دیتیں ۔۔ ابھی ہم ان کی باریک بات کا جائزہ لینے کے لئے دماغی ایکسرسائز میں مصروف تھے کہ باباجی ہنستے ہوئے کہنے لگے۔۔ عورتوں کی الگ ہی نفسیات ہوتی ہے۔۔ عورتیں صرف غریب اور بدصورت مردوں سے ہراساں ہونے پر شور مچاتی ہیں۔۔
ہمیں محسوس ہوا کہ باباجی بھٹک رہے ہیں اور وہ پٹڑی سے اترنے والے ہیں، ہم نے فوری طور پر اگلا سوال داغ دیا۔۔ باباجی روس اور یوکرائن تنازع کے حوالے سے آپ کا کیا کہنا ہے؟ باباجی کہنے لگے۔۔ روس کا صدر پیوٹن اگر ملک ریاض سے مشورہ کرلیتا کہ یوکرائن پر قبضہ کیسے کرنا ہے تو شاید جنگ کی ضرورت ہی نہ پڑتی۔۔پھر باباجی نے ہمیں روس اور یوکرائن کے حوالے سے ایک دلچسپ کہانی سنائی، کہنے لگے۔ یوکرائن کی پہلے روس سے منگنی ہوئی تھی وہ 1991 میں ٹوٹ گئی کہ لڑکا کماتا نہیں۔اب محلے میں مشہور ہو گیا کہ یوکرائن کا امریکہ نام کے ایک مالدار لڑکے کے ساتھ چکر ہے اور وہ جلد ہی نیٹو نام کی رسم کرنے لگے ہیں۔امریکہ اور روس کی کالج کے وقت کی دشمنی بھی ہے۔روس نے سمجھایا کہ یوکرائن تو میری عزت ہے، امریکا صرف مجھے تنگ کرنے کے لئے تیرے ساتھ پیار کا ناٹک کررہا ہے وہ تجھ سے پیار ویار بالکل نہیں کرتا، لیکن یوکرائن کی آنکھیں تو امریکا کی دولت دیکھ کر خیرہ ہوچکی تھیں، اس کی عقل پر پردہ پڑچکا تھا۔۔اس نے ٹکا سا جواب دے دیا۔۔جا پُکھَڑ جیا نہ ہووے تے، میرا امریکہ تیرے دند پن دے گا۔۔دوسری طرف امریکا بھی یوکرائن کو ’’لارے‘‘ دیتا رہا کہ۔۔ میں اپنے دوستوں کو کہوں گا کہ روس کا بائیکاٹ کردیں یہ بھوکا مرجائے گا۔لیکن امریکہ یہ بھول گیا کہ روس کا ماما چین ولایت جا کر کافی امیر ہو گیا تھا۔اس نے کہا۔۔ پت پیسے دی پروا نہ کر بس نیواں نہ ہوئیں۔۔یوکرائن روس کے چچا کی بیٹی بھی ہے تو اس کو کریمیا کالونی میں ایک پلاٹ دادا کی طرف سے وراثت میں ملاتھا، اب روس نے ’’رپھڑ‘‘ ڈال دیا کہ یہ پلاٹ دادا نے مجھے دیا تھا اور وہاں اپنے بندے بٹھا کر قبضہ کرلیا، یہ 2014 کی بات ہے۔۔یوکرائن بہت روئی دھوئی،امریکا کوبولی۔۔وے امریکہ اس کنجر کولوں میرا پلاٹ چھڑا۔۔امریکا جانتا تھا کہ روس کے پاس اس کے دادا سوویت یونین کی بڑی میگزین والی بندوق ہے ،اس لئے لڑنا ٹھیک نہیں۔۔اس نے کہا۔۔چھوڑو ڈارلنگ، ہم اس کو بھوک سے ماریں گے، تم نیٹو والی رسم تو کرو پھر اس کو دیکھ لیں گے۔یہ خبر روس کو پہنچی تو اس نے اپنے دو چچا زادوں سے کہا۔۔یوکرائن کے گھر میں دو کمرے دراصل تمہارے ہیں، کرلوقبضہ، کوئی اُچی نیویں ہوئی میں ویکھ لاں گا۔۔پھر وہی یوکرائن کا رونا ،امریکا کے لارے۔۔یوکرائن باز نہ آئی اور امریکا سے یاری بڑھائے جارہی تھی تو اب سنا ہے روس کہہ رہا ہے ۔۔ہن میں تینوں چک کے لے جاں گا۔۔ اور وہ وڈی بندوق لے کر گھر سے نکل بھی پڑا ہے۔اب تو محلے میں ایک نئی خبر مشہور ہے کہ ہو سکتا ہے جلد ہی روس کا ماما چین بھی اپنی پرانی ’’منگ ‘‘تائیوان اٹھا کے لے جائے۔
اور اب چلتے چلتے آخری بات۔۔ اعلیٰ تعلیم اور اونچے عہدے کے باوجود اگر زبان کنٹرول سے باہر اور اخلاقیات سے عاری ہے توپھر آپ کی شخصیت کا آئینہ وہی دکھا رہا ہے جو آپ اندر سے ہیں۔۔خوش رہیں اور خوشیاں بانٹیں۔۔