تحریر: ثمن اقبال۔۔
بڑےعہدوں کی کُچھ ذمہ داریاں ہوتی ہیں۔ بعض اوقات ہمیں افسران پر غصہ آتا اہے لیکن جب ہم خود کسی عہُدے پر ہوتے ہیں تو آپ موقع کی نزاکت کو بہترسمجھتے ہیں۔ دُنیا اور سماء میں میں نے کئی سال ڈیسک پر ذمہ داریاں نبھائی ہیں اور بعض اوقات آپ کو اُن کولیگز کے ساتھ بھی سختی کرنی پڑتی ہے جن سے آپ کا بہت اچھا تعلق ہوتا ہے کیونکہ ہر بندہ ہر وقت پروفیشنلزم کے شاید موڈ میں نہیں ہوتا۔ اور بطور عُہدے دار سب کے رویے کا جواب دہ آپ کو ہی ہونا پڑتا ہے۔ سماء میں میرے آٹھ سالوں میں سے سات سال فرحان صاحب کے زمانہ ڈائریکٹر نیوز شپ میں گزرے۔ بظاہر اُن کی اور میری شخصیت میں شاید سات آسمان کا فرق ہو اور جو لوگ مجھے جانتے ہیں میں نے کبھی سنسنی خیز یا تہلکہ آمیز کوئی خبر نہیں دی۔ لیکن اس کے باوجود میں ہمیشہ اُن کی فیورٹ نہ سہی لیکن کم از کم ناپسندیدہ تو نہیں رہی۔ مجھے یاد ہے کہ جب فرحان ملک نے سماء کے ڈائریکٹر نیوز کا عُہدہ سنبھالا تو ان دیکھا خوف یہ پھیلا کہ یہ شخص تو چُھڑا ہے جو آتے ساتھ چھڑا چلا رہا ہے اور بہت سے لوگوں کو نوکری سے نکال رہا ہے۔ لاہور بیورو میں بھی یہی چہہ مگوئیاں تھیں۔ جمعرات کا دن میری ویکلی آف کا دن تھا، آفس سے کال آئی کہ آج ڈائریکٹر نیوز لاہور آرہے ہیں سب سے ملاقات کے لئے تو آپ بھی پہنچیں۔ آفس پہنچنے پر کہا گیا کہ فرحان صاحب سب رپورٹرز کا کام دیکھ رہے ہیں آپ بھی اپنے ایک مہینے کے پیکجز ٹائم لائن پر رکھیں۔ جب میری باری آئی تو فرحان صاحب میرے تمام پیکجز تسلی سے دیکھتے ہوئے ریمارکس پاس کرتے رہے اور بتاتے رہے کہ یہاں یہ تبدیلی کی جاسکتی تھی۔ چونکہ چُست طبیعت کے حامل ہیں تو چلتے چلتے چند مشورے دئیے اور یہ جا وہ جا۔ شاید اُسی دن ہی وہ مجھے اور میرے کام کو ایسے سمجھے کہ دوبارہ کبھی میری حاضری نہیں ہوئی۔ بلکہ جہاں بہت سے کولیگ اُن سے بات کرنے میں ہچکچاتے تھے، میری گاہے بگاہے اُن سے بات چیت رہتی کیونکہ سماء میں میری ذمہ داری رپورٹنگ کے علاوہ ڈیسک پر بھی رہتی اور ڈیسک کی فون لائن پر فرحان صاحب خبرگیری کے لئے فون نہ کریں ایسا نہیں ہوتا تھا۔ گلگت بلتستان سے میری ماحولیاتی تبدیلی کی کوریج پر مجھے بہترین پیکج رپورٹر اور اقبال کو بہترین کیمرہ مین کے انعام سے نوازا۔
سماء نے اپنے ایمپلائز کی حوصلہ افزائی کے لئے وال آف فیم کا آغاز کیا تو پہلے چند لوگوں میں میری تصویر اور کہانی بھی دیوار پر آویزاں تھی اور مجھے دوسرے کولیگز سے معلوم ہوا۔ اور اُس وقت میں نے اپنے بیورو چیف احمد ولید سے پوچھا بھی کہ ایک طرف فرحان صاحب کی پسند جارحانہ رپورٹرز ہیں اور ایک طرف میرے جیسی فیچر رپورٹس بنانے والی رپورٹر۔۔۔ بات سمجھ نہیں آتی۔ فرحان صاحب ہی وہ شخصیت ہیں جنہوں نے مجھے بول جانے سے اُس وقت روکا جب اگر کسی شخص کو بول سے کال نہ آتی تو سمجھا جاتا کہ شاید وہ صحافی ہی نہیں۔ جیو میں میری جوائنگ کے دن ایک ڈائریکٹر نیوز کا کراچی سے لاہور آجانا اور سمجھانا کہ ایک ڈوبتے جہاز میں کیوں سوار ہو رہی ہو جہاں مہینوں سیلریز نہیں ملتئ۔ اور اپنے ساتھ بڑھی ہوئی تنخواہ اور عُہدے کا لیٹر لانا، یہ سب اُن کی ہی حوصلہ افزائی تھی کہ میں سماء کے ساتھ آٹھ سال جڑی رہی۔ یقینا اور بھی لوگ اس کی وجہ تھے لیکن اس وقت چونکہ فرحان صاحب زیر موضوع ہیں تو اُنہی پر بات کروں گی۔ وائس آف امریکہ میں اپوائنٹمنٹ کے وقت بھی فرحان صاحب نے میرے کہے بغیر نہ صرف تنخواہ بڑھانے کا لیٹر بھیج دیا بلکہ کارسپونڈینٹ کے عُہدے کا نیا کارڈ بھی اگلے ہی دن مجھے لاہور موصول ہوا۔لیکن میری انٹرنیشنل ادارے کے ساتھ کام کرنے کی خواہش پر اُنہوں نے مجھے ایک وقت میں دو نوکریوں کی اجازت دے دی کہ سماء میں رہتے ہوئے وائس آف امریکہ کا تجربہ کرلو، پھر فیصلہ کرنے میں آسانی ہوگئ، میں نے ایک سال وائس آف امریکہ اور سماء میں ایک ساتھ نوکری کی۔ اس دوران میرے بہت سے ساتھی جو میرے ساتھ سالوں سے کام کررہے تھے اُنہیں میری دو جگہ سے تنخواہ لینے پر اعتراض ہونے لگا اور کبھی وہ میری شکایت لے کر بیورو چیف کے پاس پہنچتے تو کبھی کنٹرولر اور ڈائریکٹر نیوز تک۔ حالانکہ اُن میں سے بہت سے اپنے یوٹیوب چینلز اور ویلاگز بھی ساتھ کررہے تھے۔ ایسے میں میرے دیگر باسز کے ساتھ فرحان صاحب نے اُن شکایتوں کو ہینڈل کیا۔ اور جب مجھے پتہ چلا کہ اب یہ اعتراضی کونسل سماء کے مالک تک پہنچنے کی تگ و دو کرررہی ہے تو میں نے خود ہی استعفی ای میل کردیا۔ جبکہ اُس مہینے بیورو چیف اور ڈائریکٹر نیوز امریکہ میں تھے اور واپسی پراُنہوں نے میرے اس فیصلے کو بُرا بھی جانا۔ میرے ساتھ اُن کے معاملات اچھے رہے اس لئے میں نے اچھی کہانی بیان کی، یقینا اُن کے دور میں بہت سے لوگ نوکری سے ہاتھ بھی دھو بیٹھے یا شاید اُن سے تنگ آکر نوکری چھوڑی بھی ہو، اس لئے اُن کی تصویر کا رُخ منفی بھی ہوسکتا ہے۔
آج جب فرحان ملک حصار میں ہیں اور بہت سے لوگ جہاں اُن کے حق میں آواز اُٹھا رہے ہیں وہاں کُچھ ناقدین اُن کی مخالفت میں بھی بول رہے ہیں۔ صرف سماء نہیں بلکہ تمام میڈیا ہاوسز جو خبر چلاتے ہیں، ظاہری بات ہے وہ کسی ایک کے حق میں ہوگی اور کسی کے خلاف اور جس کے خلاف ہوگئ وہ تو بولے گا ہی۔ لیکن یہ وقت تنقید کا نہیں۔ کوئی بھی انسان پرفیکٹ نہیں ہوتا۔ اور وقت ہمیشہ ایک سا نہیں رہتا۔ اگر آج کسی پر مُشکل وقت ہے تو دل کی بھڑاس نکالنے کے اور بھی مواقع ہوں گے، اگر اچھا نہیں کہہ سکتے تو بُرا بھی مت کہہیے۔ اور کُچھ کئے بغیر آسانیاں بانٹیں۔
ہم صحافیوں میں اتحاد کی کمی ہے، دوسرے پر آئے بُرے وقت کو اُسی کا سمجھتے ہیں، یہ نہیں سوچتے کہ کل ہماری باری بھی ہوسکتی ہے۔ ایک ہوں اور کسی شخصیت کا ساتھ دے یا نہ دیں لیکن اپنے قلم بھائی کا ساتھ ضرور دیں کیونکہ ہر وقت تجزئیے کا نہیں ہوتا انسانیت کا بھی ہوسکتا ہے۔(ثمن اقبال)