سینئر صحافی، کالم نویس اور تجزیہ کار ایاز امیر نے دنیا نیوز میں اپنا تازہ کالم میں لکھا ہے کہ۔۔قومی اسمبلی کا اجلاس دیکھ لیں‘ حکمران بینچوں پر جو بیٹھے ہوئے ہیں‘ اُن کے چہرے تو خوشی سے تلملانے چاہئیں تھے لیکن ملاحظہ ہو کہ چہرے کیسے لٹکے ہوئے ہیں‘ بات ان سے سیدھی کی نہیں جا رہی‘ وجہ یہی ہے کہ انہیں معلوم ہے‘ ان کے دل بھی اس چیز کی گواہی دے رہے ہیں کہ وہاں بیٹھنے کا ان کے پاس کوئی جواز نہیں۔ دوسری طرف معتوب جماعت کو دیکھئے‘ اعتماد ہو تو اس جیسا ہو۔ اگلوں کو وہ بولنے نہیں دے رہے اور جہاں تک بولنے کی بات ہے اگلوں کو بات کرنے کی ہمت نہیں ہو رہی۔ کیونکہ سب کو پتا ہے کہ قوم کے ساتھ کیا کھیل کھیلا گیا ہے۔وہ مزید لکھتے ہیں کہ دیگر چیزوں کو چھوڑیے‘ عامر ڈوگر اور محمود خان اچکزئی کی تقاریر سن لیجیے۔ عامر ڈوگر نے الیکشن کا سارا حساب کتاب سامنے رکھ دیا اور ہال تالیوں سے گونج اٹھا۔ اور جو باتیں محمود خان اچکزئی نے کیں وہ یہاں بیان نہیں کی جا سکتیں کیونکہ کہنے کو تو اظہارِ رائے کی مکمل آزادی ہے لیکن کتنی آزادی ہے‘ وہ ہم سب جانتے ہیں۔ اچکزئی کی تمام باتیں پتے کی تھیں اور اس سادہ انداز میں انہوں نے کیں کہ دلوں میں اُتریں۔ لیکن اس امر کا افسوس ہی کر سکتے ہیں کہ ان باتوںکا ذکر کھلے عام یا کھلے انداز میں ہو نہیں سکتا۔ایازامیر لکھتے ہیں کہ ۔۔لیول پلینگ فیلڈ کی اصطلاح تو ایک مذاق بن کر رہ گئی ہے‘ جیسے گنڈا پور نے کہا کہ لیول پلینگ فیلڈ تو دور کی بات‘ ہمیں تو فیلڈ میں اترنے ہی نہیں دیا گیا۔ مقدمات کی بھرمار‘ خوف کا سماں پیدا کرنے کی تمام کوششیں‘ نشان لے لینا اور اُس کی جگہ مزاحیہ قسم کے نشانات الاٹ کرنا‘ یہ سب ہتھکنڈے بروئے کار لائے گئے لیکن کچھ کام نہ آیا۔ عوام کی رائے اور ووٹ کے ذریعے اُس رائے کے بھرپور اظہار نے سب کچھ خاک میں ملا دیا۔ سب ہتھکنڈے کرنے والوں کی حالت اب کیا ہو گی؟ آئندہ کے بارے میں کیا سوچ رہے ہوں گے؟اصل مسئلہ البتہ کچھ اور ہے۔ دو دن کی کارروائی سے پتا نہیں چل گیا کہ ان سے یہ قومی اسمبلی نہیں چلے گی۔ پی ٹی آئی ممبران جذبات سے بھرے ہیں اور جو دوسرے ہیں اُن میں اعتماد کا فقدان ہے۔ اسمبلی نہیں چلے گی تو حکومت کہاں چلے گی؟ اور یہ تو پتا ہے سب کو کہ معیشت کے بارے میں مشکل فیصلے لینے ہیں‘ تو اس کیلئے مضبوط حکمرانی ناگزیر ہے۔ یہ جو حکومت میں لائے گئے ہیں اور جنہیں کرسیوں پر بٹھا یا گیا ہے‘ سیاسی طور پر یہ فالج زدہ ہیں‘ ان سے کیا فیصلے ہونے ہیں‘ یہ ملک کو استحکام کیسے دے سکتے ہیں؟ تو پھر ملک کا بنے گا کیا؟ روزمرہ کے اخراجات کیلئے پیسے نہیں۔ قرضوں اور اُن پر جو سود بنتا ہے اُس کی ادائیگی کیلئے پیسے نہیں۔ مستقل ادھار پر اس ملک کو ڈال دیا گیا ہے۔ حالات تو پہلے ہی خراب تھے‘ اس ناٹک نما الیکشن نے سیاسی حالات کو مزید پیچیدہ کر دیا ہے۔ ایسے میں جنہوں نے قرض دینا ہے‘ کچھ دے بھی دیا توکڑی شرائط لگائیں گے۔ باہر سے انویسٹمنٹ کچھ آ نہیں رہی۔ پھر بتائیے آگے کا راستہ کیا ہے؟ جس صورتحال میں قوم کو پھنسا دیا گیا ہے اس سے نکلنے کا راستہ کیا ہے؟وہ آخر میں مزید لکھتے ہیں کہ ۔۔ایک بات اچھی ہوئی ہے‘ جیسے بھی الیکشن ہوئے الیکشنوں کے انعقاد سے الیکشن سے پہلے والا جمود ٹوٹ گیا ہے۔ نئی حقیقتوں نے جنم لیا ہے‘ نئی چیزیں سامنے آ رہی ہیں اور نہ چاہتے ہوئے بھی نئی راہیں کھل رہی ہیں۔ جب جبر کی ہوائیں چل رہی تھیں‘ کوئی سوچ سکتا تھا کہ علی امین گنڈا پور کے پی کے کا چیف منسٹر ہو گا۔
فالج زدہ لوگ کرسیوں پر بیٹھ گئے، ایاز امیر۔۔
Facebook Comments