crime free city 2

فیک نیوز یا فیک گورنمنٹ

تحریر: جاوید چودھری۔۔

شہریار آفریدی اس وقت چیئرمین کشمیر کمیٹی ہیں‘ یہ 2019 میں نارکوٹکس کنٹرول کے اسٹیٹ منسٹر تھے‘یکم جولائی 2019 کو اے این ایف نے پاکستان مسلم لیگ ن پنجاب کے صدر رانا ثناء اللہ کو موٹروے پر گرفتار کر لیا اور ان پر15کلو گرام ہیروئن کا الزام لگا دیا۔

شہریار آفریدی نے تین دن بعد پریس کانفرنس کی اور دعویٰ کر دیا ہمارے پاس رانا ثناء اللہ کے خلاف آڈیو ویڈیو ثبوت موجود ہیں ‘ہم یہ ثبوت عدالت میں پیش کریں گے‘ آفریدی صاحب نے بعدازاں 16جولائی کو قومی اسمبلی میں کھڑے ہو کر اللہ تعالیٰ کو حاضر ناظر جان کر اعلان کر دیا‘ رانا ثناء اللہ کے خلاف ثبوت موجود ہیں‘ان سے کوئی رعایت نہیں برتی جائے گی۔

رانا ثناء اللہ چھ ماہ جیل میں رہے یہاں تک کہ اے این ایف ان کے خلاف عدالت میں کسی قسم کا ثبوت پیش نہیں کر سکی اور 26 دسمبر 2019 کو لاہورہائی کورٹ نے انھیں ضمانت پر رہا کر دیا‘ مقدمہ آج بھی چل رہا ہے لیکن آج تک وزارت‘ اے این ایف اور شہریار آفریدی ثبوت پیش کر سکے اور نہ ہی وہ ویڈیو سامنے آئی جس میں رانا ثناء اللہ ہیروئن اسمگل کر رہے تھے۔

وہ خبر اور وہ پریس کانفرنس پوری دنیا میں مشہور ہوئی تھی‘ پوری دنیا میں پاکستان اور پاکستانی پارلیمنٹیرینز بدنام بھی ہوئے لیکن یہ سارا معاملہ بعدازاں فیک نیوز نکلا‘ اب سوال یہ ہے اس فیک نیوز کا ذمے دار کون تھا؟ شہریار آفریدی یا پھر میڈیا اور پیکا کے نئے آرڈیننس کے مطابق اس فیک نیوز پر کس کو سزا ملنی چاہیے؟ غلام سرور خان سول ایوی ایشن کے وفاقی وزیر ہیں‘ خان صاحب نے 24 جون 2020 کو قومی اسمبلی میں کھڑے ہو کر دعویٰ کر دیا تھا ’’پاکستان کے 30 فیصد پائلٹس کی ڈگریاں اور لائسنس جعلی ہیں اور ان میں سے زیادہ تر نے اپنے فلائنگ آورز بھی پورے نہیں کیے‘‘ پاکستان میں اس وقت ٹوٹل 860 کمرشل پائلٹس تھے اور حکومت نے ان میں سے 262 کو مشکوک قرار دے دیا۔

یہ خبر پوری دنیا میں بریکنگ نیوز بن گئی اور آدھی دنیا نے پی آئی اے پر پابندی لگا دی اور غیر ملکی ایئرلائنز نے تمام پاکستانی پائلٹس گراؤنڈ کر دیے یوں قومی ایئر لائن کی ریڑھ کی ہڈی ٹوٹ گئی‘ یہ ہڈی اب تک بحال نہیں ہو سکی‘ وزیر موصوف کے چار منٹ کے اس بیان سے پی آئی اے کو 8 ارب روپے کا نقصان ہوا اور ملک کی بے عزتی الگ ہوئی اور یہ دعویٰ بھی بعدازاں ’’فیک نیوز‘‘ نکلا‘ 98فیصد پاکستانی پائلٹس کی ڈگریاں اور ’’فلائنگ آورز‘‘ ٹھیک ثابت ہوئے‘ اب سوال یہ ہے اس فیک نیوز کا ذمے دار کون تھا؟ غلام سرور خان یا میڈیا اور پیکا کے نئے آرڈیننس کے تحت اس فیک نیوز پر کس کو سزا ہونی چاہیے؟۔

کاش یہ صرف دو مثالیں ہوتیں لیکن بدقسمتی سے پاکستان تحریک انصاف کے دور میں ایسی سیکڑوں بونگیاں ماری گئیں اور ہر بونگی کلاسیک ثابت ہوئی‘ آپ چینی کی رپورٹ ہی لے لیں‘ وزیراعظم نے 21فروری 2020 کو چینی پرتین رکنی کمیٹی بنائی‘ رپورٹ آئی اور اس پر آج تک عمل درآمد نہیں ہوا‘ چینی 55 روپے سے 121 روپے ہو گئی‘ چینی مافیا نے چار سو ارب روپے لوٹ لیے لیکن آج تک ایک بھی شخص گرفتار نہیں ہوا‘ رنگ روڈ انکوائری ہوئی‘ 21 بااثر لوگوں کے نام سامنے آئے‘ ذلفی بخاری سے استعفیٰ بھی لے لیا گیا۔

غلام سرور خان کے نوا سٹی سے تعلق کی رپورٹ وزیراعظم کو پیش کی گئی لیکن یہ آج بھی وزیر ہیں اور نوا سٹی بھی چل رہا ہے‘ پنجاب کے وزیربیت المال سید یاور بخاری اور وزیر داخلہ شیخ رشید کا نام بھی انکوائری رپورٹ میں شامل تھا لیکن کیا ہوا؟ کمشنر راولپنڈی کیپٹن محمود اور لینڈ ریکوزیشن کلکٹروسیم تابش کو اٹھا کر جیل میں پھینک دیا گیا اور وزراء اقتدار کے مزے لوٹتے رہے‘ وسیم تابش اور کیپٹن محمود چارماہ جیل میں رہے اور اب صورت حال یہ ہے حکومت رنگ روڈ کا چالان ہی عدالت میں پیش نہیں کر رہی‘ کیپٹن محمود اور وسیم تابش دونوں شان دار سول سرونٹ اس انکوائری رپورٹ میں قربان ہو گئے۔

ان کا کیریئر تباہ ہو گیا لیکن اصل بینی فیشری آج بھی مزے لوٹ رہے ہیں‘ آپ اگر اس لسٹ میں نجم سیٹھی پر 35 پنکچر‘ ملتان موٹروے سے میاں شہباز شریف کی کک بیکس‘ برطانوی فنڈمیں خورد برد‘ سلیمان شہباز اور شہباز شریف کے خلاف این سی اے (برطانیہ) کی تفتیش اور جہانگیر ترین کے خلاف ایف آئی آرز کو بھی شامل کر لیں تو فیک نیوز کا انبار لگ جائے گا اور اس انبار کی ہر فیک نیوز کے ساتھ وزیراعظم کے بیانات جڑ جائیں گے‘ ہم اگر اس انبار میں وزراء کی کلاسیک نیوز کو بھی شامل کرلیں تو پھر کمال ہو جائے گا۔

مثلاً فیصل واوڈا نے اپریل 2019 میںایک ٹاک شو میں فرمایا تھا‘اتنی نوکریاں آنے والی ہیں کہ بندے کم پڑ جائیں گے اور یہ سب برسوں میں نہیں محض چار ہفتوں میں ہو گا‘کاروبار کرنا اتنا آسان ہو جائے گا کہ پان اور ٹھیلے والا بھی کہے گا مجھ سے ٹیکس لے لو‘ان چار ہفتوں کو گزرے اب تک دو سال اور دس ماہ ہو چکے ہیں لیکن وہ خوش خبری وقوع پذیر نہیں ہوئی‘ فواد چوہدری نے 2019میں سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کے وفاقی وزیر کی حیثیت سے دعویٰ کر دیا تھا دنیا کی سب سے بڑی ٹیلی اسکوپ ہیبل اسپارکو نے خلاء میں بھیجی جب کہ یہ ناسا کا کارنامہ تھا اور ہیبل دنیا کے مشہور خلاء نورد ایڈورڈ ہیبل کے نام سے بنی تھی۔

شہریار آفریدی نے دعویٰ فرمایا تھا‘ اے این ایف کے97 سے 98 فیصد مقدمات کا فیصلہ ہو گیا اور حوالے میں یو این او ڈی ایف کی رپورٹ کا ذکر کیا جب کہ یو این او ڈی ایف نے سرے سے کوئی رپورٹ ہی جاری نہیں کی تھی‘ علی زیدی نے اپنے ٹویٹر اکاؤنٹ پر مقبوضہ کشمیر میں لاٹھی چارج کی تصویر ریلیز کر دی۔

د ولاکھ لوگوں نے وہ تصویر دیکھی اور وہ چھ ہزار بار شیئر بھی ہو گئی لیکن وہ تصویر بعدازاں ہریانہ میں پولیس لاٹھی چارج کی نکلی‘ شیریں مزاری نے مقبوضہ کشمیر میں سیب کے درخت کاٹنے کی تصویر شیئر کی‘ وہ بھی ہماچل پردیش کی نکل آئی‘ صدر عارف علوی نے کورونا کے بارے میں ویڈیو شیئر کر دی‘ وہ بھی مس انفارمیشن نکلی اور یوٹیوب نے ویڈیو ہی ہٹا دی‘ مراد سعید نے دعویٰ کر دیا‘ گورنر نیویارک نے پاکستان کے اسمارٹ لاک ڈاؤن کی تعریف کرتے ہوئے اس ماڈل کو نیویارک کے لیے سلیکٹ کر لیا بعدازاں یہ خبر بھی غلط ثابت ہو گئی‘ وزیراعظم نے ایک بارعلامہ اقبال کا ایک شعر تشریح کے ساتھ شیئر فرما دیا اور وہ شعر سرے سے علامہ اقبال کا تھا ہی نہیں‘ آپ نے رابندر ناتھ ٹیگور کے ایک قول کو بھی خلیل جبران کا بنا دیا‘ جرمنی اور جاپان کی سرحدیں بھی ملا دیں۔

یہ آج بھی سال سے 12 موسم نکال لیتے ہیں جب کہ وزراء اور وزیراعظم کورونا کے شروع میں کورونا کی جس طرح تشریح فرمایا کرتے تھے وہ بین الاقوامی ادب میں کلاسیک کا درجہ اختیار کر چکی ہے‘ کووڈ کے بارے میں زرتاج گل کا یہ فرمان اس وقت بھی پوری دنیا میں مشہور ہے‘ ہماری وفاقی وزیر نے فرمایا تھا ’’کووڈ 19 کے 19 پوائنٹس ہوتے ہیں‘‘ یہ شیکسپیئر اور برنارڈشا کے لیول کا شاہکار ہے لہٰذا آپ دل پر ہاتھ رکھ کر جواب دیجیے کیا یہ فیک نیوز نہیں تھیں اور پیکا کے ترمیمی آرڈیننس کے بعد ان سب کو سزا نہیں ہونی چاہیے؟

آپ ان سب چیزوں کو چھوڑ بھی دیں تو بھی حکومت کے لیے ان کے فیک دعوے اور فیک یوٹرن ہی کافی ہیں‘ یہ تاریخ کی واحد حکومت ہے جس نے ملک کے لوٹے ہوئے دو سو ارب ڈالر واپس لا کر ایک ارب ڈالر ایک کے منہ پر اور دوسرا ارب ڈالر دوسرے منہ پر مارنا تھا‘ آٹھ ہزار ارب روپے ٹیکس بھی جمع کرنا تھا‘ قوم کو آئی ایم ایف کی غلامی سے بھی نکالنا تھا‘ جن کی نظر میں ڈالر کی قدر میں ایک روپیہ اضافے سے سو ارب روپے قرض بڑھتا تھا اور جنھوں نے حکومت میں آ کر قوم کو اس قرض کی غلامی سے نجات دلانی تھی‘ ایک کروڑ نوکریاں اور پچاس لاکھ گھروں کا بندوبست بھی کرنا تھا۔

پٹرول‘ بجلی‘ گیس‘ آٹا اور گھی بھی سستا کرنا تھا‘ امیر اور غریب دونوں کے لیے انصاف میں بھی برابری لانی تھی‘ پورے ملک کے لیے ایک نصاب بھی بنانا تھا‘ ایک ماہ میں کرپشن بھی ختم کرنی تھی اور ملک کو بھیک سے نکال کر اپنے قدموں پر بھی کھڑا کرنا تھا لیکن آج وہ وعدے وہ دعوے کہاں ہیں؟ آج قوم کا بچہ بچہ پوچھ رہا ہے اگر جھوٹی خبر کی سزا پانچ سال ہے تو جھوٹے وعدوں پر کیا سزا ہونی چاہیے؟ قوم یہ بھی پوچھتی ہے حکومت کوئی ایک سیکٹر بتا دے جس میں اس نے فیک نیوز اور فیک دعوؤں کے علاوہ بھی کچھ دیا ہو؟ آج وزیراعظم روس میں ہیں اور مجھے یقین ہے یہ وہاں پیوٹن کو بھی بتا رہے ہوں گے میں روس کو تم سے زیادہ جانتا ہوں اور تمہیں ملک ایسے چلانا چاہیے اور یہ ہے ہمارا کل کنٹری بیوشن۔

میں آج پھر عرض کر رہا ہوں وہ وقت آئے گا جب اس دور کو پاکستان کا بدترین دور ڈکلیئر کیا جائے گا‘ یہ ثابت ہو گا دنیا کی واحد اسلامی جوہری طاقت پر ناتجربہ کار‘ نا سمجھ اور متکبر لوگ برسراقتدار آئے تا کہ یہ لوگ اس ملک کو وہاں پہنچا دیں جہاں سے اسے واپس نکالنا ممکن نہ رہے اور یہ سازش ہر روز کام یابی کی طرف دوڑ رہی ہے‘ اللہ کرے میرا یہ تبصرہ ’’فیک نیوز‘‘ ثابت ہو جائے اور یہ ملک اور اس کا ایٹمی پروگرام بچ جائے لیکن بظاہر اب یہ ممکن نظر نہیں آ رہا‘ اس فیک گورنمنٹ نے اس ملک کو کسی قابل نہیں چھوڑا اور یہ تبصرہ فیک نہیں ہے‘ وقت ثابت کر رہا ہے یہ ٹرونیوز اور سچ پر مبنی حقائق ہیں‘ اللہ اس ملک کی حفاظت کرے۔(بشکریہ ایکسپریس)

Facebook Comments

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں