تحریر:سید بدر سعید
فیک نیوز پاکستان ہی نہیں بلکہ دنیا بھر کا مسئلہ بن چکا ہے۔ گزشتہ دنوں تحریک انصاف کی جانب سے اسلام اباد میں احتجاج کے حوالے سے ابھی تک سوشل میڈیا پر فیک نیوز کی بھرمار ہے یہاں تک کہ تحریک انصاف کے سیاسی رہنماؤں کے بیانات بھی مختلف نظر آتے ہیں، کوئی 300 کارکن تو کوئی 200 کارکنان کی شہادت بتا رہا ہے ۔ سوال یہ ہے کہ اتنی بڑی تعداد میں اگر لاشیں موجود ہوں تو ریاست یا حکومت کیسے قائم رہ سکتی ہے؟ مجھے یاد آتا ہے کہ لاہور میں ظل شاہ نامی کارکن کی وفات کی خبر پر پورا پولیس ڈیپارٹمنٹ ہی نہیں حکومت بھی ہل گئی تھی۔ ظل شاہ کے قتل کا الزام پولیس پر ڈالا گیا تو آئی جی پنجاب خود ان کے گھر پہنچ گئے۔ اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ کسی ایک سیاسی کارکن کی شہادت بھی حکومت اور پولیس پر کتنا زیادہ دباؤ ڈال سکتی ہے۔ صرف پانچ چھ افراد بھی شہید ہوتے تو یقینا تحریک انصاف کے قائدین اسلام آباد سے جانے کی بجائے وہیں شاہراہوں پر نماز جنازہ ادا کر رہے ہوتے ہیں۔ اس واقعہ کے بعد سوشل میڈیا پر کئی ایسی تصاویر اور ویڈیوز جاری کی گئیں جن میں سے زیادہ تر پرانی تھی اور کچھ آرٹیفیشل انٹیلیجنس کی مدد سے بنائی گئی تھی ۔ سوال یہ ہے کہ جو کارکن شہید ہوئے ان کی لاشیں کہاں گئیں؟ اس کا جواب یہ دیا گیا کہ ریاست نے ان لاشوں کو ہسپتال سے اٹھا لیا یہ بھی کہا گیا کہ ہسپتال کا ریکارڈ غائب کر دیا گیا ۔ یہاں تک کہ نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر غیر ملکی اداروں نے بھی اس حوالے سے بہت کچھ لکھ دیا۔اس صورت حال نے کئی سوال اٹھا دیے ہیں ۔ پہلی بات یہ کہ کسی شخص کو قتل کرکے اس کی لاش غائب کر دی جائے تب بھی اس کا خاندان، رشتہ دار اور دوست احباب ضرور ہوتے ہیں ۔ تحریک انصاف کے پاس بطور سیاسی جماعت یہ بہت بڑا موقع ہے کہ وہ ان شہداء کے گھروں میں تعزیت کے لیے جائیں اور ان کے اہل خانہ سے ملاقات کریں۔ شہدا کی تصاویر کے ساتھ ان کی فیملیز کے انٹرویوز کیے جائیں لیکن ابھی تک ایسا کچھ نظر نہیں آیا ۔ ایک دو جنازوں کی ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل کی گئی جو کہ پرانی نکلی ۔ مجھے حیرت کے ساتھ دکھ بھی ہوا کہ اگر مان لیا جائے کہ 10 سے 12 کارکن بھی شہید ہوئے ہیں تو اتنی بڑی سیاسی جماعت میں ایک بھی ایسا رہنما نظر نہیں ایا جو اپنے شہید کارکن کے گھر جا کر ان کے اہل خانہ کو تسلی دیتا ، کوئی ایک ویڈیو یا تصویر سامنے نہیں آ سکی جس میں ان کارکنان کا غائبانہ نماز جنازہ ادا کیا گیا ہو اور ان کی فیملی کو گلے لگایا گیا ہو۔ جب کوئی شخص اس دنیا سے جاتا ہے تو اس کے ماں باپ، بیوی بچے اور دیگر اہل خانہ شدید دکھ کے عالم میں ہوتے ہیں۔ وہ سیاستدان جو الیکشن کے دنوں میں پرانی اموات کی بھی فاتحہ پڑھنے پہنچ جاتے ہیں وہ اپنے ہی احتجاج کے دوران شہید ہونے والے اپنے کارکن کے گھر تسلی کے دو لفظ کہنے بھی نہ جا سکے؟ سوچتا ہوں کہ ہم مڈل کلاس طبقے کی یہی اوقات ہے ؟ کوئی بھی سیاسی جماعت ہو، ایسی ناگہانی اموات صرف کارکنان کے حصے میں ہی کیوں آتی ہیں؟ جلسے جلوسوں میں پولیس سے ٹکراؤ کی صورت میں کسی مرکزی رہنما کا بیٹا زخمی نہیں ہوتا۔ یہ ایسی جمہوری سیاسی جماعتیں ہیں جو اپنے بچوں کو احتجاج اور جلسوں سے دور رکھتی ہیں، جن کے اہل خانہ ہمیشہ محفوظ رہتے ہیں لیکن کارکنان قربانیاں دیتے رہتے ہیں۔ اگر ایک لمحے کے لیے یہ مان لیا جائے کہ اسلام آباد احتجاج میں ریاست سے ٹکراؤ کے نتیجے میں تحریک انصاف کے کارکنان کی بڑی تعداد شہید ہوئی ہے اور ان کا ریکارڈ اور لاشیں بھی غائب کر دی گئی ہیں تب بھی سوال یہ ہے کہ ان کے اہل خانہ ، رشتہ دار اور دوست احباب سامنے کیوں نہیں جائے گئے ؟ کیا پارٹی کے لیے یہ کارکنان اتنے ہی غیر اہم تھے کہ ان کے حوالے سے کوئی ڈیٹا ہی موجود نہیں؟ کوئی سیاسی رہنما ان کے گھر کیوں نہیں گیا؟ کیا یہ کارکنان جانوروں سے بھی کم درجہ رکھتے تھے کہ کسی ایک سیاسی لیڈر نے یہ گوارا نہیں کیا کہ اپنے شہید کارکن کی بیٹی کے سر پر ہاتھ رکھ سکے اور اس کے بوڑھے ماں باپ کو دلاسہ دے سکے؟ یا کم از کم اس کے گھر کا کے اخراجات اٹھا سکے؟
بدقسمتی سے فیک نیوز نے اصل خبروں کو بھی منظر عام سے غائب کر دیا ہے۔ اس سے پہلے لاہور کے ایک کالج میں طالبہ کے ساتھ مبینہ زیادتی کی فیک نیوز وائرل ہوئی ۔ لاہور جیسے شہر میں میڈیا پر پابندی لگائی جا سکتی ہے، ہسپتال سے ڈیٹا ختم کیا جا سکتا ہے ، فیملی کو ڈرا دھمکا کر چپ کروایا جا سکتا ہے لیکن پھر بھی خبر کو نہیں روکا جا سکتا۔ خبر کے کئی ذرائع ہیں، رپورٹرز کے کئی رابطے ہوتے ہیں ، لڑکی کی میت لے جانے والے ایمبولنس کا ڈرائیور ، ہسپتال میں اسے ریسیو کرنے والا عملہ، ڈاکٹروں کی اپنی یونین اس کے علاوہ مبینہ بچی کے رشتہ دار، کزن، بزرگ ان سب کو ایک ساتھ مینج کرنا ممکن نہیں۔ یقینا رشتہ داروں میں سے کئی لوگ ملک سے باہر بھی ہوں گے۔ اس کے ساتھی طلبہ کو بھی معلوم نہیں کہ وہ کون ہے؟ لیکن اس ایک فیک نیوز نے لاہور ہی نہیں پورے پاکستان کے والدین کو پریشان کر دیا تھا ۔ ایسی کئی فیک نیوز ماضی میں بھی وائرل ہوئیں اور اگر صورتحال کو کنٹرول نہ کیا گیا تو یہ مستقبل میں پاکستان کے خلاف سب سے بڑا ہتھیار بن سکتا ہے۔۔
اسی لیے کہا جاتا ہے کہ ہر وہ شخص جس کے پاس موبائل ہو وہ صحافی نہیں ہے ۔ خبر کا تعلق ویوز سے نہیں حقائق سے ہوتا ہے۔ فیک نیوز پر کنٹرول کرنا پاکستانی ریاست کی ذمہ داری ہے۔ صحافتی اداروں اور جامعات پر لازم ہے کہ فیکٹس چیک اور فیک نیوز پر باقاعدہ نصاب مرتب کیا جائے اور ٹریننگ ورکشاپس کا انعقاد کیا جائے تاکہ ڈس انفارمیشن کے اس دور میں اصل خبر تک پہنچا جائے ورنہ ہر ایسے سانحہ پر 22 کروڑ میں سے چالیس کروڑ لوگ “شہید” ہوں گے(بشکریہ نئی بات)۔۔