fake news dene ka ilzam mulzim lahore se giraftaar

فیک نیوز

تحریر: جاوید قاضی۔۔

ملک میں الیکشن کی تیاریاں اپنے عروج پر ہیں، ایک ہی ہفتہ رہ گیا ہے۔ اب الیکشن کی تاریخ میں تبدیلی یا ملتوی ہونا ناممکن سی بات لگتی ہے۔ہاں! اب یہ انتخابات ایسے ہونے چاہئیں کہ بین الاقوامی مانیٹرنگ ٹیم ان انتخابات کو شفاف قرار دے پائے۔ بہت دیر سے ہی مگر اب الیکشن کے حوالے سے جلسے، جلوسوں اور کارنر میٹنگزکا سلسلہ بھی تیز ہوچکا ہے۔دیکھنا اب یہ ہے کہ انتخابات میں پولنگ اسٹیشنز پر ووٹرزکی موجودگی کا کیا تناسب رہتا ہے، اگر ووٹرزکی موجودگی کا تناسب 40% سے زیادہ رہا تو ان انتخابات کوکامیاب قرار دیا جا سکتا ہے لیکن اگر یہ تناسب بیس یا پھر تیس فیصد تک ٹھہرا تو یہی سمجھا جائے گا کہ عوام کی دلچسپی انتخابات میں نہیں رہی۔

زمینی حقائق ان چیزوں سے بہت مختلف ہوتے ہیں جو چیزیں ہمیں سوشل میڈیا پر دکھائی جاتی ہیں۔ تجزیہ نگاروں کا یہ کہنا ہے کہ پہلی مرتبہ ایسا ہورہا ہے کہ جمہوریت کو بے بنیاد جھو ٹی خبروں سے خطرہ ہے اور سوشل میڈیا کی موجودگی نے اس صورتحال کو سنگین بنا دیا ہے، ان افواہوں، جھوٹی خبروں، جھوٹ کو سچ بنانے کا ڈھول اس زور سے پیٹا جارہا ہے ، جس نے دنیا بھر میں حقائق اور جمہوریت کو آلودہ کردیا ہے۔

عالمی مبصرین یہ کہتے ہیں کہ اس وقت دنیا کو دو بڑے خطرات کا سامنا ہے۔ ایک ماحولیاتی آلودگی اور دوسرا افواہوں اور جھوٹی خبروں کا طوفان! ان fake news  نے امریکی سوسائٹی کے داخلی تضادات کو منفی طور پر ابھارا۔ سفید فام نظریے میں تیزی آئی اور امریکا میں رنگدار لوگوں کے خلاف نفرت کو ہوا دی گئی۔ یہ کام ری پبلکن پارٹی پہلے سے ہی کرتی تھی مگر ڈونلڈ ٹرمپ صاحب نے اس نظریے کو عروج دیا ہے جو ٹرمپ سے پہلے انتہائی کمزور ہو چکا تھا۔

نریندر مودی نے بھی یہی روش اختیارکی اور پورے سیکیولر ہندوستان کا شیرازہ بکھیر دیا۔ نوے کی دہائی میں ایڈوانی نے انھیں نفرتوں کا سہارا لے کر گجرات سے ایودھیا تک یاترا کی اور وہاں پانچ سوسال پرانی بابری مسجدکو مسمارکیا، یہ کہہ کرکہ یہ ہندو دیوتا رام کا جنم استھان تھا، لہٰذا یہاں رام مندر تعمیرکیا جائے گا، وہ رام مندر جس کا افتتاح ہندوستان کے وزیرِ اعظم نریندر مودی نے کیا ہے جب کہ ہندوستان کا آئین یہ کہتا ہے کہ ریاست اور مذہب الگ الگ ہیں۔ہندو مذہب کو بی جے پی حکومت نے ہندوستان کے سرکاری مذہب کا درجہ دے دیا ہے۔ اب دو ماہ بعد ہندوستان کے لوگ اور اکتوبر کے مہینے میں امریکا کے عوام ووٹ ڈالنے جا رہے ہیں۔

دوہزار تئیس کا سال  ماحولیاتی حساب سے دنیا کی تاریخ کا گرم ترین سال تھا اور ماحولیاتی سائنس دان یہ بھی کہتے ہیں کہ سال2024 مزید گرم ہوگا۔ 2023 میں کاربن گیس کے اخراج کا نیا ریکارڈ قائم ہوا ہے۔ مشرقِ وسطیٰ، یوکرین اور تائیوان کے تنازعات نے اس دنیا کو تیسری عالمی جنگ کی طرف دھکیل دیا ہے۔ ان تمام تنازعات کے تناظر پاکستان اپنے داخلی اور خارجی تنازعات سے نبرد آزما ہے۔

اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ ہندوستان نے پاکستان کی سالمیت کو نقصان پہنچانے کے لیے اسرائیل کے ساتھ مل کر فیک نیوزکا ماحول بنایا ۔ افغانستان سے آئے ہوئے لوگوں نے منشیات کا بازار گرم کیا اور پاکستان کو دہشت گردی کی آگ میں جھونکا اور انھیں لوگوں کے تعلقات تھے، ہندوستان اور اسرائیل سے۔ بہت حوصلہ مندی سے ریاست نے ان عناصر کا تعاقب کر کے ان کے گرد گھیرا تنگ کیا ہے مگر مکمل کامیابی اب بھی دور ہے۔

ہمارے ہاں دو اقسام کے ووٹرز ہیں، ایک وہ ہے جو کسی بیانیہ کے تحت ووٹ ڈالتا ہے اور ایک وہ ووٹر ہے جو برادری کے پسِ منظر میں ووٹ ڈالتا ہے، اگر آپ نے تاریخی اور زمینی حقائق کا صحیح مشاہدہ نہیں کیا ہے اور صرف بیانیہ کو ترجیح دی یا پھر آپ کا بیانیہ تاریخی اور زمینی حقائق کے تحت زنگ آلود ہوچکا ہے تو یقینا یہ بیانیہ ریاست ایک کمزور ریاست بنا دیتا ہے۔

برادری اور قبائلی نظام کی ٹوٹ پھوٹ باشعور سوچ کو جنم دیتی ہے۔ مڈل کلاس کو جنم دیتی ہے اور یہ ٹوٹ پھوٹ لوگوں کو با اختیار بناتی ہے، لیکن اگر بیانیہ میں خلل ہے تو ایسی طاقت فسطائیت کو ابھار دیتی ہے۔ مڈل کلاس کی بنیادوں میں پہلا فاشزم ووٹر تیزی سے کراچی اور حیدرآباد میں آیا اور ہم نے دیکھا یہ فسطائیت کراچی میں مضبوط ہوئی۔ بلآخر ریاست کو مداخلت کرنی پڑی اس رجحان کو طاقت سے ختم کیا۔

ہم نے یہ بھی دیکھا کہ یہ فاشسٹ سوچ اور نظریہ جس کو جمہوریت اپنے مفادات کے ٹکراؤ میں نظر آتی تھی، انھوں نے پہلے فاشزم کو جمہوریت اور جمہوری قوتوں کے خلاف استعمال کیا، پھر جب یہ سوچ پاکستان کے خلاف بین الاقوامی قوتوں سے جا ملی تو ہم جاگے اور ریاست ایسی قوتوں کے خلاف آہنی ہاتھوں سے نبرد آزما ہوئی۔

مڈل کلاس طبقہ سندھی قوم پرستوں میں بھی اور بلوچ قوم پرستوں میں بھی جن کے ساتھ کچھ روایتی سردار بھی تھے، مگر ان دونوں قوموں میں مضبوط مڈل کلاس نہ تھی، اسی لیے وہ ریاست کے لیے مسئلہ نہ بن سکی۔ ریاست کے لیے اگر مسئلہ بنا بھی تو بہت چھوٹے پیمانوں پر۔

ملکی سطح پر سب سے بڑی مڈل کلاس پنجاب سے ابھری اور خاص کر جنرل مشرف کے دور میں اور پھر اس کے بعد خیبر پختونخوا سے۔ ریاست کا وہ بیانیہ جس کو آمریت نے بڑھاوا دے کر مضبوط بنایا کہ ’’ سیاستدان چور ہے‘‘ اس بیانیے کو آگے لے کر آئے عمران خان۔ جنرل مشرف کو الوداع کہنے کے بعد وہ گروہ جو آمرانہ سوچ کے حامل تھے، ایسے لوگوں کے مفادات کا تحفظ اسی بیانیہ سے کیا جاتا تھا۔

وہ عمران خان کو آگے لے کر آئے، مگر خان صاحب کی پارٹی کی بنیاد تو مڈل کلاس سیاست سے تھی اور انھوں نے اقتدار میں آنے کے لیے آہستہ آہستہ اپنے مخصوص برادری اور قبائلیت کی بنیادوں پر پنجاب کی سیاست کے بڑے بڑے کھلاڑیوں سے گٹھ جوڑ بنانا شروع کردیے، جن صحافیوں اور اینکرز کو یہ بیانیہ دے کر ٹی وی چینلز پر بٹھایا گیا، ان کے پیچھے مراعات کی طاقت تھی۔وہ سب راستے چھوڑ چھاڑ خان صاحب سے جڑگئے۔ پھر جب وقت بدلا، ریاست نے اپنی سمت درست کی اور جاناکہ پاکستان کا مستقبل اور پاکستان کی بقاء جمہوریت کی بالادستی میں ہی ہے تو وہ روٹھ کر ہی بیٹھ گئے۔

میاں نواز شریف اس وقت پنجاب میں مڈل کلاس کے نمایندہ بن کر، مڈل کلاس کے اس لیڈرکو رفتہ رفتہ بے معنی بنا رہا ہے جس نے فاشزم میں پناہ لی، طالبان کے ساتھ الحاق کیا اور ایک ایسا کام کرنے جا رہا تھا جو بین الاقوامی قوتیں پاکستان کے خلاف کرنا چاہتی تھیں۔پاکستان پیپلز پارٹی کہنے کو تو عوامی پارٹی ہے مگر سندھ میں کسی مڈل کلاس طبقے کی نمایندگی نہیں کر رہی ہے۔ اس کے برعکس ان کا ووٹ بینک برادری بنیادوں پر ہے۔ پیپلزپارٹی اب وہ جماعت نہیں جس نے 1988 میں بے نظیرکی لیڈر شپ میں غلام مصطفی جتوئی اور پیر پگارا جیسے مضبوط لوگوں کواپنے عوام سے شکست دی۔

اب سندھ اور خصوصاّ دیہی سندھ کا ووٹ برادری کا ووٹ ہے اور اس حوالے سے پیپلز پارٹی اپنی افادیت کھو چکی ہے۔ سندھ کے اربن علاقوں میں شاید پہلی بار پیپلز پارٹی ووٹ لے گی۔ سندھ میں بلاول بھٹو کی شخصیت وہ کشش حاصل نہیں کرسکی جو لوگوں میںان کے نانا کے حوالے سے تھی یا پھر بے نظیر کے حوالے سے۔سات دنوں میں لوگوں کی ذہن سازی کرنے کے حوالے سے کوئی بڑی تبدیلی نہیں آئے گی۔ یہ ایک سسٹم ہے اور اسی سسٹم کے اندر رہ کر چلنا ہے۔ وہ قوتیں یا ان کے انفرادی مفادات جنھوں نے ریاست کے اداروں کو استعمال کیا اور سسٹم کوکمزور بنا دیا۔

یہ انتخابات یقیناً متنازعہ کہلائیں گے جیسا کہ ماضی کے ہر الیکشن کو متنازعہ قرار دیا گیا۔ ماسوائے 1970 کے انتخابات کے جو بہتر اور شفاف تھے، مگر انتخابات کے بعد ملک کے دو ٹکڑے ہوئے اور پھر وہ الیکشن بھی انتہائی متنازعہ ٹھہرے، پھر 2018 کے الیکشن نے اس ملک کو تباہی کی جانب دھکیل دیا۔(بشکریہ ایکسپریس)۔۔۔

Facebook Comments

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں