punjab kpc noon league ka mustaqbil makhdoosh hai

فیض حمیدکے دور میں میر شکیل الرحمن کو جیل بھیجا گیا، سہیل وڑائچ۔۔

سینئر صحافی، کالم نویس اور تجزیہ کارسہیل وڑائچ کا کہنا ہے کہ ۔۔جنرل فیض حمید سے ملنے کا تجسس بہت تھا مگر یہ ملاقات تب ممکن ہوئی جب میڈیا کے مشکل ترین حالات میں اسلام آباد آئی ایس آئی کے دفتر میں جنگ اور جیو کے ادارتی ذمہ داران کی طلبی ہوئی، یہ کمزور ناچیز بھی اس ٹیم میں شامل تھا، اس ٹیم میں جنگ اور جیو کے سینئر ترین لوگ شامل تھے۔روزنامہ جنگ میں اپنے تازہ کالم میں سہیل وڑائچ لکھتے ہیں کہ ۔۔ مارگلہ ہلز کے دامن میں پارلیمان ہائوس والی سڑک پر واقع اس دفتر کے کانفرنس روم میں ہم سب چھوٹے بڑے لائن حاضر تھے اور منتظر تھے کہ قدرت سے کیا ظہور میں آتا ہے ابھی ہم کرسیوں پر سیدھے ہو رہے تھے کہ جنرل فیض حمید تشریف لے آئے ہر ایک سے فرداً فرداً ہاتھ ملایا مسکرا مسکرا کر سب سے ملے اور ہیڈ چیئر پر براجمان ہو گئے شاید یہ پیغام دینا مقصود تھا کہ اس میٹنگ کے باس وہ ہیں حالانکہ ماضی میں اس طرح کی ملاقاتوں کا آداب اور قرینہ یہ ہوا کرتا تھا کہ فریق آمنے سامنے بیٹھ کر برابری اور احترام کی بنیاد پر بات کرتے تھے حالانکہ بالادستی تو طاقتور کو ہی حاصل ہوتی تھی لیکن وضع داری میں ظاہر یہی کیا جاتا تھا کہ دونوں فریق برابر ہیں لیکن جنرل پاشوں، جنرل ظہیروں اور فیضوں نے اس وضعداری کو خیر باد کہہ دیا تھا، جنرل عاصم باجوہ اور انکے فوراً بعد آنے والے جنرل کے دور میں ماضی کا قرینہ وضع داری اور آداب بھلا کر 30،40سالہ تجربے والے ایڈیٹرز کو لیفٹین، کپتان اور کرنل فون کر کے سنگین نتائج کی دھمکیاں دیا کرتے تھے، دھمکیاں پہلے بھی آتی تھیں مگر ادب آداب کو ملحوظ خاطر رکھ کر رینک اور رتبے کا خیال رکھتے ہوئے مگر اوپر دیئے گئے ناموں کے دور میں عسکری ادارے کے کار پردازان نے میڈیا کی توہین اور اس کے ذمہ داروں کی ذلت کا پورا اہتمام کئے رکھا۔ آج اگر میڈیا کا گلا گھونٹا جا چکا ہے تو اس کا آغاز جنرل عاصم باجوہ نے منظم سائنسی طریقے سے کیا ان کے فوراً بعد آنے والے جنرل نے اسے نئی بلندیوں تک پہنچا دیا، میڈیا سے وہ وہ مطالبات کئے جاتے تھے جو پورے 70سال کی تاریخ میں کبھی سنے نہیں گئے تھے۔ خیر ذکر تو جنرل فیض سے ملاقات کا ہو رہا تھا گلے شکوے توبر سبیل ِتذکرہ آ گئے۔ ملاقات کا آغاز لمبے چوڑے سمارٹ بریگیڈیئر صاحب نے کیا اور کہا کہ آج کے جنگ اخبار نے حکومت کے خلاف شہ سرخی جمائی ہے حالانکہ کسی اور اخبار نے ایسا نہیں کیا۔ ہمارے ادارے کے سربراہ نے تحمل سے الزام سنا اور سامنے پڑے چار اخبارات میں لگی وہی شہ سرخی دکھا دی، دوسری جانب خاموشی چھا گئی الزام ہی غلط تھا، جنرل فیض حمید کایاں تو تھے سمجھ گئے کہ ٹیبل ٹاک اور دلائل کی بنیاد پر جیتنا ممکن نہیں اور یوں ہمارے باس کا بازو پکڑ کر اندر لےگئے، یہ تو علم نہیں کہ اندر کیا ہوا لیکن بظاہر خوشگوار ملاقات کے بعد بھی برف مکمل طور پر نہ پگھل سکی اور پھر جنرل فیض حمید کے دور ’’سعید‘‘ ہی میں ہمارے ادارے کے سربراہ کو ایک جھوٹے مقدمے میں پھنسا کر جیل بھیج دیا گیا جنگ اور جیو کے خلاف پس پردہ اور کھلی کارروائیاں جاری رہیں۔

Facebook Comments

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں