faislay ke baad

فیصلے کے بعد

تحریر: خورشید ندیم۔۔
عمران خان صاحب بھی اب متقدمین کی فہرست میں شامل ہو گئے۔ پہلے آنے والوں میں کوئی مسٹر ٹین پرسنٹ تھا اورکوئی سسلین مافیا۔ جن ایوانوں نے کسی کو ماضی میں سسلین مافیا کا خطاب دیا تھا‘ انہوں نے اب خان صاحب کے لیے بھی کچھ تمغوں کا علان کیا ہے: بددیانت اور دھوکہ باز۔
اس قضیے کے دوپہلو ہیں: قانونی اور سیاسی۔ عدالت میں جو کچھ ہوا اسے قانونی کہا جائے گا‘ اگرچہ ہمارے ملک میں قانون اور سیاست کو الگ کرنا مشکل ہے‘ تاہم عدالت میں فیصلوں کو قانونی رنگ دیا جاتا ہے۔ قانون کے ہاتھ چونکہ لمبے ہوتے ہیں‘ اس لیے اس کی گرفت سے بچنا آسان نہیں ہوتا۔ وہ چاہے تو آپ کو اُن پیسوں پر تاحیات نااہل قرار دے دے جو آپ لے سکتے تھے مگر آپ نے نہیں لیے۔ قانون اگر سب سے بڑی عدالت کو تفتیشی عدالت میں بدل کر آپ کا حقِ اپیل ختم کر دے تو بھی اس کا ہاتھ کوئی نہیں پکڑ سکتا۔
سیاست کے بھی اپنے رنگ ہیں۔ کم و بیش ایک سال بعد فیصلہ آیا تو کہا گیا ‘عجلت‘ میں دیا گیا۔ گویا فارن فنڈنگ کیس کی طرح دس سال تو چلنا چاہیے تھا۔ اب ایسی جلدی بھی کیا تھی کہ ایک سال میں فیصلہ سنا دیا۔ یہ ملک‘ عدالت‘ عوام کیا بھاگے جا رہے تھے؟ بچپن سے ہم انگریزوں کا یہ فرمان سنتے آرہے ہیں کہ انصاف میں تاخیر انصاف کا انکار ہے۔ اب بتایا جا رہا ہے کہ ‘عجلت‘ نہیں دکھانی چاہیے۔ گویا ہم کوئی غلام ہیں کہ انگریزوں کی ہر بات مانیں؟یہ ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ ہے۔ غزل اور جواب آں غزل۔ بالعموم ایسی بحث مناظرے کا رخ اختیار کر لیتی ہے۔ خواہش دوسرے کو نیچا دکھانا ہوتا ہے‘ صحیح نتیجے تک پہنچنا نہیں۔ اس لیے اس پہلو پر مزید کچھ کہنے کے بجائے ہم آگے بڑھتے اور یہ دیکھتے ہیں کہ یہ فیصلہ سیاست پر کیا اثر ڈالے گا۔ کیا خان صاحب کا سیاسی کردار ختم ہو جائے گا؟ کیا ان کے لیے واپسی کا کوئی دروازہ کھلا ہے؟
عدالتی فیصلے سیاست پر کم ہی اثر انداز ہوتے ہیں۔ ایسے فیصلے وقتی طور پر پارلیمنٹ یا سیاسی اداروں میں کسی کا داخلہ روک سکتے ہیں‘ اس پر سیاست کا دروازہ بند نہیں کر سکتے۔ آدمی میں جان ہو اور وہ سیاسی حرکیات کو سمجھتا ہو تو وہ اپنا راستہ نکال لیتا ہے۔ بھٹو صاحب ایک عدالتی فیصلے کے نتیجے میں دنیا سے چلے گئے مگر سیاست سے نہ جا سکے۔ اگر آپ زندہ ہیں تو پھر واپسی کا امکان بڑھ جاتاہے۔ کیا عمران خان صاحب پر بھی اس اصول کا اطلاق ہوتا ہے؟
یہ اطلاق مشروط ہے۔ شرط ہے سیاسی حرکیات سے آگاہی۔ اہلِ سیاست کے ساتھ معاندانہ تعلقات کے ساتھ یہ ممکن نہیں ہو گا۔ خان صاحب کو یہ لڑائی اگر وقتی مفاد کے بجائے اصول کی بنیاد پر لڑنی ہے تو لازم ہے کہ وہ اہلِ سیاست کی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھائیں۔ اب تو مقتدرہ کے بارے میں ان کا مؤقف اصولی نہیں تھا۔ ان کو صرف اس بات کا صدمہ ہے کہ ان کی پشت سے ہاتھ کیوں اٹھایا گیا؟ مقتدرہ کم و بیش چار سال ان کے لیے جو خدمات سر انجام دیتی رہی اس سے انکار کیوں کیا؟
ہم جانتے ہیں کہ بحیثیت وزیراعظم انہوں نے ایک دن بھی اپوزیشن سے رابطہ نہیں کیا۔ ہاتھ تک نہیں ملایا۔ جب پارلیمنٹ میں انہیں حمایت کی ضرورت ہوئی تو ان کے لیے یہ خدمت مقتدرہ نے سر انجام دی۔ میں واقعات کی فہرست کو طویل کر سکتا ہوں مگر یہ تحصیلِ حاصل ہے۔ اس کی و جہ یہ ہے کہ سیاست کا ایک عام طالب علم بھی اس سے واقف ہے۔ جب مقتدرہ نے یہ خدمت واپس لے لی اور ان سے یہ کہا کہ وہ اپنے سیاسی اعمال کا بوجھ خود اٹھائیں تو وہ میر جعفر قرار پائے۔ یہ کوئی اصولی موقف نہیں ہے۔ کوئی بااصول آدمی اس معرکے میں خان صاحب کے ساتھ کھڑا نہیں ہو سکتا۔ اصولی مؤقف یہ ہوگا کہ سیاست اہلِ سیاست کا کام ہے اورکسی ریاستی ادارے کو اس میں شریک نہیں ہونا چاہیے۔ اہلِ سیاست میں سے حکمرانوں کا انتخاب عوام کا کام ہے اور یہ ان پر چھوڑ دینا چاہیے۔
خان صاحب کرپشن کے خلاف بھی نہیں ہیں۔ زبانِ قال سے وہ کچھ بھی کہتے رہیں‘ وہ زبانِ حال سے اس کا اعتراف کر چکے۔ ان کا مسئلہ نواز شریف ہیں۔ وہ اس لیے کہ سیاست میں وہی ہیں جو ان کے اصل حریف ہیں۔ اس لیے انہیں ‘نواز شریف کی کرپشن‘ کے خلاف لڑنا ہے۔ یہ مقدمہ اب نہیں چل سکے گا۔ وہ یہ بھی ثابت کر چکے کہ قانون کی حکمرانی بھی ان کا مسئلہ نہیں۔ قانون کی حکمرانی سے ان کی مراد یہ ہے کہ اسے شریف خاندان کے خلاف متحرک ہونا چاہیے۔ اگر عدالت یہ کر گزرے تو قانون کی حکمرانی قائم ہو جائے گی۔ انہیں اس سے زیادہ دلچسپی نہیں کہ کوئی پیزا کا کاروبار کر رہا ہے یا پراپرٹی کا۔
اس طرح بات آگے نہیں بڑھ پائے گی۔ انہیں سیاست‘ اہلِ سیاست کی طرح کرنا ہوگی۔ دیگر اہلِ سیاست کے خلاف وہ اپنا مقدمہ انتخابات کے موقع پر عوام کی عدالت میں پیش کریں۔ جہاں تک آئین اور قانون کی حکمرانی کی بات ہے یا عوام کی حاکمیت کا مقدمہ ہے تو انہیں یہ لڑائی اہلِ سیاست کے ساتھ مل کر لڑنا ہوگی۔ یہ وہ اپنے طرزِ عمل سے ثابت کر چکے کہ وہ ہر معاملے میں دیگر اہلِ سیاست ہی کی طرح ہیں۔ پھر اس معاملے میں امتیاز کیوں؟ سیاسی حرکیات سے آگاہی اسی کا نام ہے ‘بات چیت کے دروازے بند نہ کیے جائیں۔
آج بھی عمران خان صاحب کا مقدمہ یہ ہے کہ پی ڈی ایم کی حکومت مقتدرہ اور ان کے مابین دوریاں پیدا کرنا چاہتی ہے۔ گویا انہیں شکایت مقتدرہ سے نہیں‘ پی ڈی ایم سے ہے۔ گویا اب بھی آپ اسی طرف دیکھ رہے ہیں۔ ایک طرف مقتدرہ کے خلاف سوشل میڈیا پر طوفانِ بدتمیزی برپا کر رکھا ہے اور دوسری طرف یہ کہا جا رہا ہے کہ یہ پی ڈی ایم ہے جو دوریاں پیدا کر رہی ہے۔ سیاست میں سب چالاکی کرتے ہیں مگر اصل چالاکی وہی ہوتی ہے جو دکھائی نہ دے۔
عمران خان صاحب کی سیاست صرف قانونی جنگ لڑنے سے نہیں بچ سکتی۔ اس کے لیے انہیں سیاسی لڑائی بھی لڑنی ہے۔ یہ سوشل میڈیا کے توسط سے نہیں لڑی جا سکتی۔ نواز شریف صاحب کی مثال ان کے سامنے ہے۔ ان کی سیاست میں واپسی اہلِ سیاست کے ساتھ تعلق کی وجہ سے ممکن ہوئی۔ انہوں نے پیپلز پارٹی اور جمعیت علمائے اسلام جیسی سیاسی قوتوں کے وجود کو تسلیم کیا اور انہیں ساتھ لے کر چلے۔ اس کے بعد یہ ممکن ہوا کہ فیصلوں کی باگ ان کے ہاتھ میں چلی گئی۔
میں بہت پہلے یہ تجویز دے چکا ہوں کہ ‘میثاقِ جمہوریت‘ ایک اچھی دستاویز ہے جو اہلِ سیاست کے لیے ایک جمہوریت پسند ضابطۂ اخلاق تجویز کرتی ہے۔ اگر سیاسی جماعتیں اس کی بنیاد پر اتحاد کر لیں تو ملک میں جمہوریت مضبوط ہو سکتی ہے۔ عمران خان صاحب کی سیاست نے غیر جمہوری قوتوں کو مضبوط کیا ہے اور وہ ان کے سیاسی کردار میں اضافے کا باعث بنے ہیں۔ انہوں نے دیگر سیاسی جماعتوں کو دوسری طرف دھکیلا ہے۔ یہ اقتدار کی سیاست ہے اور اس میں بقا اہم ہوتی ہے۔ خان صاحب سمیت سب بقا کی جنگ لڑ رہے ہیں۔ اس جنگ میں اصول زیرِ بحث ہی نہیں۔ خان صاحب نے فوج کے سربراہ سے ملاقات کے لیے جو لاحاصل جد وجہد کی اس سے بہت کم محنت کے ساتھ وہ سیاسی میدان میں اپنا مقدمہ مضبوط بنا سکتے تھے۔
عدالتی فیصلے کے بعد انہیں ایک بار پھر اپنی سیاسی حکمتِ عملی پر سوچنا چاہیے۔ انہیں اگلے انتخابات سے صرفِ نظر کرتے ہوئے ایک حکمتِ عملی بنانی ہے۔ صبر کے بغیر سیاست نہیں ہو سکتی۔ سیاسی حرکیات سے عدم مطابقت خان صاحب کی سیاست کو ختم کر سکتی ہے۔(بشکریہ دنیانیوز)

Facebook Comments

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں