پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی (پی ٹی اے ) نے اپنے چیئرمین کی جانب سے حکومت کو سماجی رابطوں کی ویب سائٹس بلاک کرنے کی تجویز کے حوالے سے چلنے والی خبروں کی تردید کردی ہے اور سماجی رابطوں کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر جاری بیان میں پی ٹی اے نے کہا کہ ان میڈیا رپورٹس میں کوئی صداقت نہیں جن میں کہا جارہا ہے کہ پی ٹی اے نے سوشل میڈیا ویب سائٹس کو بلاک کرنے کی تجویز دی ہے۔قبل ازیں نجی ٹی وی چینل نے دعویٰ کیا تھا کہ کہ سینیٹ کی قائمہ کمیٹی کو بریفنگ دیتے ہوئے چیئرمین پی ٹی اے عظیم باجوہ نے کہا کہ سوشل میڈیا پر گستاخانہ مواد بہت بڑا مسئلہ ہے، سوشل میڈیا پر جعلی ناموں سے بھی اکاؤنٹ چلائے جارہے ہیں، زیادہ ویب سائٹس بیرون ممالک سے آپریٹ ہورہی ہیں۔بے بنیاد قرار دیئے گئے دعوے کے مطابق چیئرمین پی ٹی اے نے کہا کہ حکومت پالیسی بناکر چین اور یو اے ای کی طرح سماجی رابطے کی ویب سائٹ کو بلاک کردے، حکومت پالیسی بنائے اور مقامی سطح پر متبادل سماجی رابطوں کی ویب سائٹ بنائی جائیں، بصورت دیگر پی ٹی اے کی تکیینکی صلاحیت کو بڑھائیں۔عظیم باجوہ کا کہنا تھا کہ 2010 سے لےکر اب تک 39 ہزار سے زائد لنکس کو بلاک کیا جاچکا ہے، لوگوں میں آگہی پیدا کرنے کے اشتہار دیتے ہیں کہ توہین آمیز مواد جرم ہے۔چیئرمین پی ٹی اے نے بتایا کہ بچوں کی پورنوگرافی میں پاکستان کے نمبر ون ہونےکی غلط فہمیاں ہیں، 2015 میں ایک بین الاقوامی اخبار نے رپورٹ کیا کہ پاکستان بچوں کی پورنوگرافی میں نمبر ون ہے، بین الاقوامی اخبار کی اس خبر میں دیے گئے اعداد و شمار غلط تھے، پاکستان میں یقیناً چائلڈ پورنوگرافی ہے لیکن پاکستان چائلڈ پورنوگرافی میں پہلے نمبر پر نہیں، ہم نے پورنوگرافی سے متعلق ساڑھے 8 لاکھ ویب سائٹس بلاک کی ہیں۔چیئرمین نے مزید بتایا کہ گستاخانہ مواد سے متعلق ہمیں عوام کی ساڑھے 8 ہزار شکایات موصول ہوئیں، گستاخانہ مواد کی 40 ہزار ویب سائٹس بلاک کیں، ڈارک ویب پاکستان میں موجود ہے لیکن اس کو کنٹرول کرنا آسان نہیں، ڈارک ویب کے ذریعے پراکسی کے بلاک ویب سائٹس کھول دی جاتی ہیں۔عظیم باجوہ نےکہا کہ حکومت نے ہمیں سوشل میڈیا رولز بنانے کے احکامات دیے ہیں، پی ٹی اے سوشل میڈیا کے رولز تیار کر رہا ہے جسے جلد پیش کریں گے۔ایف آئی اے حکام نے کمیٹی کو اپنی بریفنگ میں بتایا کہ سائبر کرائمز کے حوالے سے 3 سال میں 32 ہزار شکایات موصول ہوئیں، ایف آئی اے سائبر کرائمز ونگ کے پاس صرف 15 تفتیشی اہلکار ہیں، پنجاب سے 15 اور اسلام آباد سے4 کیسز میں ملوث افراد کو گستاخانہ مواد پر گرفتار کیا گیا، گستاخانہ مواد کے 12 کیسز کی تفتیش ہو رہی ہے۔
فیس بک بند کرنے کی تردید۔۔
Facebook Comments