پاکستان نے سائبر کرائمز سے متعلق میوچل لیگل اسسٹنس معاہدے پردستخط نہیں کیے۔۔۔ ڈائریکٹر جنرل سائبر کرائمز نے کہا ہے کہ معاہدے کے بغیر فیس بک اور ٹوئیٹر رسپانس نہیں دیتے۔۔قومی اسمبلی قائمہ کمیٹی کے اجلاس میں وزارت انفارمیشن ٹیکنالوجی اور ایف آئی اے حکام نے بریفنگ دی، ڈی جی سائبر کرائمز نے واضح کیا کہ میوچل لیگل اسسٹنس معاہدے کی صورت میں پاکستان کو بھی تحقیقاتی ایجنسیوں کا ڈیٹا شیئر کرنا ہوگا،وزارت آئی ٹی کے حکام نے کہا کہ اگر کمیٹی ہدایات دے تو معاہدے کے حوالے سے معاملات آگے بڑھاسکتے ہیں، اس پر کمیٹی اراکین نے میوچل لیگل اسسٹنس ٹریٹی کی کاپی طلب کرلی۔پی ٹی اے ممبر نے اجلاس میں بتایا کہ 10لاکھ ویب ایڈریس بلاک کروائے ہیں جبکہ کشمیر پروپیگنڈے پر ٹوئٹر انتظامیہ نے پاکستان کی شکایت پر 146 اکاؤنٹس معطل کئے۔ڈی جی سائبر کرائمز کی بریفنگ کے دوران ممبران کمیٹی نے سوشل میڈیا پر تنگ کرنے، نامناسب الفاظ اور پروپیگنڈا کرنے والوں کےخلاف اقدامات پر سوالات کیے۔جس پرجواب میں کہا گیا کہ فیس بک، ٹوئٹر انتظامیہ سے شکایات کرتے ہیں مگر ہمیں مناسب رسپانس نہیں دیتے ۔۔۔چائلڈ پورنو گرافی، قتل اور کچھ حساس نوعیت کے کیسز میں وہ ہمیں جواب دے دیتے
ڈی جی سائبر کرائمز کے مطابق میوچل لیگل اسسٹنس ٹریٹی پر پاکستان نے دستخط نہیں کئے ہوئے، اس لیے یہ ان کا دائرہ اختیار ہے کہ وہ جواب دیں یا نا دیں، معاہدے پر دستخط کرنے سے ہم بہت سی شقوں کے پابند ہوجائیں گے اور انفارمیشن شیئرنگ بھی کرنی پڑے گی۔انہوں نے مزید کہا کہ سائبر کرائمز ایکٹ آنے کے بعد سے اب تک مختلف شکایات پر 904 ملزمان کو گرفتار کیا گیا اور 66 افراد کو سزا دی گئی ہے۔روزنامہ جنگ کے مطابق
کمیٹی ممبر ناز بلوچ نے کہا کہ معاہدے پر بات کرنے سے پہلے ہمیں اس کی تفصیلات سے آگاہ ہونا ضروری ہے۔انہوں نے مزید کہا کہ سوشل میڈیا پر کیسے تنگ کیا جاتا ہے اس کا اندازہ تحریک انصاف چھوڑنے پر ہوا، سوشل میڈیا پر اتنا ٹارگٹ کیا گیا کہ ایک ہفتہ سو نہ سکی۔ناز بلوچ نے یہ بھی کہا کہ سوشل میڈیا پر آزادی رائے کے اظہار میں صحافی اور سیاستدان سافٹ ٹارگٹ ہیں، آزادی رائے تحریک انصاف کے لیے کچھ اور مسلم لیگ نون اور پیپلز پارٹی کے لیے الگ ہے۔ان کا کہنا تھا کہ اس وقت میرے نام اور تصویر سے فیس بک پر 12 اکاؤنٹ ہیں، کوئی حل نہیں نکالا گیا۔
ممبر کمیٹی کنول شوزب نے کہا کہ 10 ماہ سے 6 موبائل نمبر سے میرے نام سے پی ٹی آئی کی خواتین کو میرا حوالہ دے کر کہا گیا کہ فلاں ایجنسی کے بندے سے مل لیں، میں نے ایف آئی کو شکایت بھی درج کروائی مگر کچھ نہ ہو سکا، میرا یہ حال ہے تو عام بندے کا کیا حال ہو گا۔