ایسا کہاں سے لاؤں کہ تجھ سا کہوں جسے۔۔

تحریر: ندیم اعوان

رفیق افغان کے جنازے کے لیے کھلے آسمان تلے شہید مسجد الفتح کے فرش پر صف بندی کی جاچکی تھی۔ کچھ لوگ اگلی صفوں میں جگہ بنانے کی کوشش میں تھے اور میرا ذہن 20 سال پیچھے کی یادوں میں کھو چکا تھا۔

نائن الیون ہوچکا تھا۔ امریکا بہادر نے اعلان کردیا تھا کہ بتاؤ تم کس کا ساتھ دو گے؟ کوئی پتھر کے دور میں جانے کو تیار نہیں تھا۔ سب نے سر تسلیم خم کر دیے تھے۔ میڈیا چڑھتے سورج کا پجاری بن چکا تھا۔ پاکستانی اخبارات کو امریکا کی جانب سے زیادہ رقم پر اشتہارات جاری کیے گئے۔ ایک اشتہار امت کے دفتر بھی بھیجا گیا۔ جس پر اسامہ بن لادن اور دیگر کی تصاویر کے ساتھ لکھا تھا کہ “یہ مجاہدین اسلام نہیں دہشتگرد ہیں”۔

خلاف معمول مدیر اعلیٰ کے کمرے سے شور اور گالیوں کی آوازیں سنائی دیں۔ تمھیں جرات کیسے ہوئی؟ یہ اشتہار امت میں لانے کی؟ اور اگلے روز پاکستان کے تمام اخبارات کے فرنٹ پیجز پر چوتھائی صفحہ کے اشتہارات کی طرح امت کے صفحہ اول پر بھی اشتہار تھا۔ وہی سائز وہی ڈیزائن جملوں کی لمبائی اور الفاظ کی تعداد بھی وہی مگر مفہوم بدل ہوچکا چکا تھا۔ اشتہار امریکی اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ کی جانب سے نہیں امت اخبار کی جانب سے تھا۔ جس پر تصاویر کے اوپر لکھا تھا۔ “یہ دہشت گرد نہیں مجاہدین اسلام ہیں”۔ اشتہار کیا تھا امت مسلمہ کی ترجمانی تھی۔ جس پر عالم کفر آگ بگولہ ہوگیا اور انٹرنیشل میڈیا کی شہ سرخیاں بن گئیں۔

جنازے میں شریک ہر شخص افسردہ تھا اور ان کی دلیری اور اسلام سے محبت کا تذکرہ کررہا تھا۔ اور مجھے روزنامہ امت کی وہ سالانہ تقریب یاد آرہی تھی جو نائن الیون کے سانحہ کے بعد ہوئی۔ تقریب کے مہمان خصوصی وزیر اطلاعات شیخ رشید  تھے۔ جو اپنے خطاب میں بتانے لگے کہ پہلی مرتبہ فیکس مشین دیکھ کر حیران رہ گیا تھا کہ کاغذ یہاں سے ڈالو تو پرنٹ دوسرے شہر یا ملک میں موجود دوسری مشین سے نکلتا ہے اب تو دنیا بہت ترقی کر چکی ہے اگر ہم امریکا کی بات نہ مانتے تو وہ ہمارا آملیٹ بنالیتا۔ تقریب کے اختتام پر رفیق افغان نے مہمان خصوصی کا شکریہ ادا کرتے ہوئے بتایا کہ “شیخ صاحب دنیا واقعی بہت ترقی کر چکی ہے۔ اب مجاہد گولی کابل میں چلاتا ہے اور اس کی دھمک وائٹ ہاوس کے اندر محسوس کی جاتی یے”۔ اس جملے پر حاظرین نے بھرپور تالیاں بجائیں اور شیخ رشید اپنا سگار ہاتھ میں لیے فرنٹ صوفوں پر بیٹھا شرمندہ ہوتے ہوئے زیر لب مسکراتا رہ گیا۔

رفیق افغان دبنگ ایڈیٹر تھا۔ جو ٹیم چلانا جانتا ہے۔ صحافت سے وابسطہ ہونے کی وجہ سے ان کے ادارے میں آنا جانا رہتا تھا۔ ایک روز اخبار کے فرنٹ پر چار کالمی خبر تھی جس سے شہر میں دینی جماعت کے کارکنان میں تشویش کی لہر دوڑ گئی۔ خبر کی کریڈٹ لائن دیکھ کر مجھے اندازہ ہوگیا کس صحافی نے خبر فائل کی ہے۔ فون پر رابطہ کرکے صحافی سے ملاقات کی۔ اسے بتایا کہ آپ نے ادھوری معلومات پر ٹیبل اسٹوری کرلی۔

شام کو اسی حوالے سے رفیق افغان سے ملاقات ہوئی تو ناراض تھے کہ اخبار کس کا ہے اور ذمہ دار کون ہے؟ آپ کو صحافی کی بجائے مجھ سے رابطہ کرنا چاہئے تھا۔ ان کی ناراضگی اور غصے کا سامنا کرنے کے بعد میں نے اپنا موقف رکھا۔ انہیں احساس ہوگیا کہ غلطی رپورٹر کی ہے۔ مگر بولے ندیم! میں نائن زیرو سے لے کر وائٹ ہاؤس تک لڑ رہا ہوں۔ یہی رپورٹر جان ہتھیلی پر رکھ کر فیلڈ میں نکلتے ہیں۔ ان کی عزت میری عزت ہے۔ تمہاری خبر کا ازالہ میں کروں گا۔ تم رپورٹر سے مل کر اپنے رویہ پر معذرت کرلو۔ جس بات پر لوگ نوکری سے فارغ کردیتے ہیں رفیق صاحب اپنی ٹیم کے ساتھ کھڑے ہوکر کہتے ہیں ان کی کامیابیوں کا کریڈٹ میں لیتا ہوں تو غلطیوں کو بھی مجھے ہی برداشت کرنا پڑے گا۔

امام نے جنازے کا طریقہ بتانا شروع کیا تو میرا ذھن افغان صاحب کی اسلام و پاکستان سے گہری وابستگی کی طرف چلا گیا۔ سن 2012 میں مزار قائد کے سامنے باغ جناح گراؤنڈ میں ہونے والے دفاع پاکستان کونسل کے جلسہ کی کوریج کا معاملہ آیا تو سب اسے مذہبی جماعتوں کا اجتماع اور روزنامہ امت امریکا کے خلاف پاکستانی عوام کی مضبوط آواز قرار دے کر کوریج کررہا تھا۔ کوریج بھی ایسی بھی ایسی کہ دفاع پاکستان کونسل کے ترجمان اخبار میں بھی ایسی کوریج نظر نہ ائی۔

آج اس رفیق افغان کے جنازہ پڑھنے کھڑا ہوں کہ جس کی تلوار کی کاٹ جہادی میدان میں اور قلم کی کاٹ صحافتی  میدان میں گونجتی تھی۔ جو لکھتا تھا تو مخالفین کے درد کا اندازہ ان کی چیخوں سے ہوتا تھا۔ جو صحافت میں نام تھا مگر اپنی تصاویر اور بیانات چھپوانے کا شوقین نہ تھا۔ وہ تقریبات کی زینت بن کر فوٹو سیشن کروانے کی بجائے اپنے قلم سے فرائض کی ادائیگی کرتے۔ وہ شخص نہیں تحریک تھے۔ بعض لوگ ان کی طرز صحافت پر اعتراض بھی کرتے تھے مگر جو بھی کہیں وہ اسلام اور مجاہدین کی توانا آواز تھے۔آج وہ اپنے خالق حقیقی سے جاملے ہیں۔ اور ہم ان کے جنازے کو سامنے رکھ کر صفوں میں کھڑے اپنے رب سے ان کے لیے دعاگو ہیں۔اے اللہ! رفیق افغان کی لغزشوں، کوتاہیوں اور گناہوں کو معاف فرماکر اسے اپنی جنت الفردوس کا مہمان بنا دے۔ آمین یارب العالمین۔۔(ندیم اعوان)۔۔

How to write on Imranjunior website
How to write on Imranjunior website
Facebook Comments

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں