تحریر: انصار عباسی۔۔
جب سے وزیراعظم عمران خان کی ہدایت پر پاکستان کے سرکاری نشریاتی ادارے پی ٹی وی پر ترکی کا مقبول ترین تاریخی ڈرامہ ’’ارطغرل غازی‘‘ چلایا جا رہا ہے، اُسے پاکستانی عوام کی طرف سے بے پناہ سراہا جا رہا ہے۔میں نے یہ ڈرامہ نہیں دیکھا لیکن میڈیا کی خبروں کے مطابق اس ڈرامہ نے ماضی کے ریکارڈ توڑ دیے ہیں۔ اس ڈرامہ کی پہلی قسط کو یکم رمضان المبارک کو پاکستان میں نشر کیا گیا جس کے بعد سوشل میڈیا پر ہر جگہ اس ڈرامے کے چرچے ہیں۔ایک خبر کے مطابق ابتدائی پندرہ دنوں میں اس ڈرامہ کے یوٹیوب چینل پر دس لاکھ سبسکرائبرز ہو گئے جبکہ ڈرامہ کی پہلی قسط کو 10 مئی تک یوٹیوب پر ایک کروڑ 41لاکھ سے زیادہ افراد دیکھ چکے تھے۔یہ ڈرامہ خلافت عثمانیہ کی اسلامی تاریخ، کلچر اور روایات پر مبنی ہے جسے ترکی میں بہت بڑی کامیابی کے بعد وزیراعظم عمران خان کی ہدایت پر اردو زبان میں ڈب کر کے پاکستان میں دکھایا جا رہا ہے۔ اس کا مقصد پاکستانی عوام کو اسلام کے سنہری دور سے آگاہ کرنا ہے۔
سوشل میڈیا کے ذریعے اس ڈرامہ کے کچھ ڈائیلاگز پڑھنے اور دیکھنے کا موقع ملا جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس ڈرامہ کا مقصد دیکھنے والوں کو اسلامی تاریخ کے ساتھ ساتھ قرآن و سنت کی تعلیمات اور جہاد جیسے اہم فرائض سے آگاہ کرنا ہے۔ میڈیا کے ذریعے ہی معلوم ہوا کہ جب اس ڈرامہ کو ترکی میں دکھایا جانے لگا اور وہاں اس کو بے پناہ مقبولیت ملنے لگی تو اس پر مغربی میڈیا نے بھی لکھنا شروع کیا اور اسے خلافت عثمانیہ کے احیا کی کوشش قرار دیا گیا۔
یہ بھی پتا چلا کہ ترکی میں اپنی بے پناہ مقبولیت کے باوجود وہاں کے سیکولر طبقہ کی طرف سے اسے ہدفِ تنقید بھی بنایا گیا۔ گزشتہ دو تین ہفتوں کے دوران اس ڈرامہ کے بارے میں مَیں نے ٹیوٹر پر لوگوں کے تاثرات پڑھنا شروع کیے تو معلوم ہوا کہ یہ تو پاکستان میں نئے ریکارڈ قائم کر رہا ہے لیکن تعجب مجھے اس بات پر ہوا کہ ہمارے لبرلز اور سیکولرز کے ایک طبقے نے اس ڈرامہ پر اعتراضات اٹھانا شروع کر دیے ہیں اور اُن کا سب سے بڑا اعتراض یہ ہے کہ جو ترک اداکار اور اداکارہ اس ڈرامے میں اہم کردار ادا کر رہے ہیں‘ ڈرامے میں اپنے اسلامی کردار کے برعکس حقیقی زندگی میں ’’سیکولر‘‘ ہیں۔
صاف ظاہر ہو رہا تھا کہ اعتراض کرنے والوں کو اصل تکلیف ڈرامہ کے اسلامی تھیم اور مسلمانوں کی قابل فخر تاریخ دکھانے پرہو رہی تھی۔ ورنہ جو طبقہ یہ باور کرانے کی کوشش کر رہا ہے کہ ڈرامہ کے مرکزی کردار ادا کرنے والے اداکار تو حقیقی زندگی میں اسلامی نہیں، وہ عمومی طور پر ڈراموں، فلموں میں فحاشی و عریانیت کا خوب دفاع کرتا ہے اور اسے آرٹ کا نام دیتا ہے۔
جنہیں پاکستان میں مغربی اور بھارتی فلمیں دکھانے پر اعتراض نہیں، غیر اسلامی کلچر یہاں پرموٹ ہونے پر کئی مسئلہ نہیں وہ اس بات پر سیخ پا ہیں کہ پاکستان میں ایک ایسا ترک ڈرامہ کیوں دکھایا جا رہا ہے جو اسلامی تاریخ کا عکاس ہے، جس میں قرآن و حدیث اور دینی اصولوں کی پاسداری کی تعلیم دی گئی ہے۔کیا میڈیا، فلم اور ڈرامہ کا مقصد صرف وہی ہے جو عمومی طور پر ہالی وڈ اور بالی وڈ دنیا کو دکھاتے ہیں؟ محسوس ایسا ہوتا ہے کہ میڈیا، فلم اور ڈرامہ کے ذریعے پاکستانی معاشرہ کو سیکولر بنانے کی کوشش کرنے والوں کو ’’ارطغرل غازی‘‘ نے پریشان کر دیا ہے۔
ہمارے ہاں بھی ماضی میں اسلام کے سنہری دور پر ڈرامے بنتے رہے جن کا مقصد اسلام کے ہیروز کے ساتھ ساتھ اسلامی تعلیمات سے ناظرین کو روشناس کرانا تھا لیکن گزشتہ چند ایک دہائیوں سے یہ سلسلہ بند ہو گیا ہے اور اب تو فلموں، ڈراموں میں اکثر جو دکھایا جاتا ہے اُس کا مقصد بے ہودگی پھیلانا اور مغربی اور بھارتی کلچر کو یہاں فروغ دینا ہوتا ہے۔ اسلام کا کوئی نام لے، قرآن و حدیث کی بات کرے یا جہاد کا حوالہ دے تو کہا جاتا ہے کہ لوگ کچھ اور دیکھنا چاہتے ہیں۔
ترکی نے اس ڈرامہ سے اس پروپیگنڈا کو جھوٹ ثابت کیا اور اب ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم بھی اپنے ملک کے میڈیا، فلم اور ڈراموں کو اُس گندگی سے صاف کریں جو مغربی اور بھارتی میڈیا کی پہچان ہے اور جس کی اندھی نقالی میں ہم یہاں وہ بگاڑ پیدا کر رہے ہیں جس کی قیمت ہماری نسلوں کو ادا کرنا پڑے گی۔یہاں میں لاسٹ اسلامک ہسٹری کے بارے میں مختصرا بات کرنا چاہوں گا چونکہ اس کتاب کو وزیراعظم عمران خان نے نوجوان کو پڑھنے کے لئے کہا ہے اور ہمارے چند لبرلز کو اس پر بھی اعتراض ہے لیکن میری ذاتی رائے میں جو لوگ تفصیل سے اسلامی تاریخ کا مطالعہ نہیں کر سکتے، اُن کے لیے اس کتاب جو 160-170 صفحات پر مشتمل ہے، میں اُس تاریخ کا ایک احاطہ موجود ہے جو ہمارے لیے قابل فخر بھی ہے اور جسے جان کر ہم اُن عوامل پر بھی غور کر سکتے ہیں جو ہماری سنہری تاریخ کے خاتمے کا باعث بنے۔
اس کتاب کو پڑھ کر ایک بات ثابت ہوتی ہے کہ جب مسلمان اپنے اصل یعنی اسلامی تعلیمات کے ساتھ جڑے رہیں گے تو اُنہیں اللہ تعالی کامیابی و کامرانی عطا فرمائے گا اور وہ دنیا کی حکمرانی حاصل کر لیں گے لیکن جب ان اصولوں کے برخلاف جائیں گے۔اسلام کے برعکس دوسری اقوام کی نقالی اور نت نئے غیر اسلامی نظریات کو اپنائیں گے تو پھر مسلمان مار کھاتے رہیں گے اور یہی کچھ ہمارے ساتھ آج کل ہو رہا ہے۔(بشکریہ جنگ)۔۔