اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس اطہرمن اللہ کی عدالت نے صحافیوں کے مسائل سے متعلق پی ایف یو جے کی درخواست میں حکومت کو چیئرمین آئی ٹی این ای جلد تعینات کرنے کی ہدایت کرتے ہوئے کہاہے کہ آئندہ سماعت تک چیئرمین آئی ٹی این ای تعینات کیا جائے،عدالت نے صحافیوں کے مسائل سے متعلق وفاقی حکومت سے دوبارہ جواب طلب کرلیا۔گذشتہ سماعت کے دوران پی ایف یو جے کی جانب سے عادل عزیزقاضی ایڈووکیٹ، عمیر گیلانی ایڈووکیٹ کے علاوہ عدالتی معاون سینئر صحافی حامد میر،پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹ کے فنانس سیکرٹری جمیل مرزا،اسلام آباد ہائی کورٹ جرنلسٹ ایسوسی ایشن کے صدر ثاقب بشیر،ڈپٹی اٹارنی جنرل سید طیب شاہ، رجسٹرار آئی ٹی این ای اور دیگر عدالت پیش ہوئے، عدالتی معاون مظہر عباس کی جانب سے تفصیلی جواب عدالت میں جمع کروا دیاجبکہ وزارت اطلاعات اور سیکرٹری قانون نے جواب جمع نہ کروایا،چیف جسٹس نے استفسار کیاکہ دنیا بھر میں کیا پریکٹس ہے؟ صحافت کی آزادی اور رپورٹرز کی سیکورٹی کیسے ہوتی ہے؟پریس کی آزادی کے لیے ایڈیٹر کو بھی پروٹیکشن حاصل ہونی چاہیے،سینئر صحافی حامد میر نے کہاکہ ہر ملک کا قانون الگ ہے، ملکی قوانین کے مطابق پالیسی دیکھنی ہوتی ہے،ہر ادارے کی ایڈیٹوریل کمیٹی ہوتی ہے جو پالیسی معاملات دیکھتی ہے،یہ ذمہ داری ادارے کے مالک چیف ایڈیٹر کی نہیں بلکہ ایڈیٹر کی ہوتی ہے جو صحافی ہوتا ہے،ابھی جرنلسٹ پروٹیکشن بل منظور ہوا ہے جس میں کیمرا مین اور فوٹوگرافرز کو جرنلسٹ کیٹگری سے ہی نکال دیا گیا،جرنلسٹ پروٹیکشن بل کی سیکشن6 سینسرشپ کلاز ہے،بل میں فیک نیوز کی تعریف کئے بغیر بھاری جرمانوں کا بھی کہا گیا ہے،پاکستان میں غیر اعلانیہ سینسر شپ ہے، یہ اب پیمرا کے ذریعے نہیں بلکہ نامعلوم فون کال کے ذریعے ہوتی ہے،چیف جسٹس نے کہاکہ ادارے صحافی کو اس بنیاد پر نکالیں کہ ان پر پریشر ہے تو وہ بھی آئین کی خلاف ورزی ہے اس کو کیسے روکیں؟،اگر فری پریس نہیں ہو گا تو وہ آئین کے آرٹیکل 19 کی خلاف ورزی ہے،کسی کے خیالات پسند نہیں تو اسے ملازمت سے فارغ کر دینا آئین کی خلاف ورزی ہے،حامد میر نے کہاکہ اس حوالے سے قانون سازی کی ضرورت ہے،چیف جسٹس نے کہاکہ میڈیا مالکان کا مفادات کا ٹکراؤ نہیں ہونا چاہیے، کوئی تو قانون ہو جو ان چیزوں کو ایڈریس کرے، حامد میر نے کہاکہ اخبارات کے صحافیوں کے لیے قانون موجود ہے، الیکٹرانک میڈیا کے جرنلسٹس کے لیے نہیں، چیف جسٹس نے کہاکہ ویج بورڈ ایوارڈ کا کیا سٹیٹس ہے؟ اس کا مقصد کیا ہوتا ہے؟، حامد میر نے کہاکہ ویج بورڈ میں اخبارات کے صحافیوں کی کم از کم تنخواہ مقرر کی گئی ہے، ہر کیٹگری میں ایک معیار مقرر کیا گیا ہے،کنٹریکٹ ملازمین پر ویج بورڈ لاگو نہیں ہوتا، چیف جسٹس نے کہاکہ عدالت کے سامنے اکثر کیسز آئے ہیں کہ انہیں تعیناتی کا لیٹر ہی نہیں دیا جاتا،عادل عزیز قاضی نے کہا کہ چیئرمین آئی ٹی این ای ویجز کےنفاذ کا ذمہ دار ہوتا ہے اور متاثرین کے کیسز سنتاہےلیکن وہ عہدہ ہی خالی ہے اور ڈیڑھ ہزار سے زائد کیسز التواء کا شکار ہیں، ڈپٹی اٹارنی جنرل نے کہاکہ چیئرمین آئی ٹی این ای کا عہدہ مارچ سے خالی ہے، 19 دسمبر کو آسامی مشتہر کر دی گئی ہے، چیئرمین کی تعیناتی کے ساتھ اس آفس کو مزید موثر بنایا جا رہا ہے،چیف جسٹس نے کہاکہ اتنا اہم عہدہ اتنے عرصے سے خالی ہے، تقرری کر کے آئندہ سماعت پر عدالت کو آگاہ کریں،ڈپٹی اٹارنی جنرل نے وزارت اطلاعات اور وزارت قانون کو جواب جمع کرانے کی مہلت کی استدعا کرتے ہوئے کہاکہ آئندہ سماعت پر جواب اورتفصیلات عدالت پیش کر دیں گے، عدالت نے مذکورہ بالا اقدامات کے ساتھ وفاق سے پروٹیکشن آف جرنلسٹس اینڈ میڈیا پروفیشنلز بل کی کاپی طلب کرتے ہوئے سماعت20 جنوری تک کیلئے ملتوی کردی۔واضع رہے کہ عدالت نےانٹر نیشنل فیڈریشن آف جرنلسٹ اور پی ایف یو جے کے سیکرٹری جنرل رانا عظیم کےخط کو درخواست میں تبدیل کر کے سماعت کی، خط میں رپورٹرز کی جاب سیکیورٹی، ویج بورڈ ایوارڈ نفاذ اور صحافیوں کے مسائل کو خط میں اجاگر کیا گیا تھا۔
