tna test

“الیکٹرانک میڈیا ورکر کا معاشی مستقبل”

تحریر: شکیل بازغ۔۔

رزق کے معاملے میں میرا ذاتی نقطہءِ نظر روحانی تعلیمات سے منسلک ہے۔ تاہم یہاں مادی نظریئے کے تحت میڈیا میں کام بطور کریئر پر بات کرنا چاہوں گا۔

ملک عزیز میں پیشہ ورانہ تعلیم میں میڈیا ایجوکیشن سیکٹر سے ہزاروں طالب علم ہر سال فارغ التحصیل ہورہے ہیں جن کی کھپت کیلئے انڈسٹری کا حجم نہایت قلیل ہے۔

جون 2006 سے اب تک میں ملک کے پانچ بڑے اداروں میں نیوز پروڈکشن اور نیوز روم شعبہ جات میں کام کر چکا ہوں۔ اس عرصے کے دوران مجھے ایک دن کی بھی بے روزگاری کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔ یہ رازق کا کرم ہے۔  لیکن میں نے اس عرصے کے دوران کئی نامور قابل۔ متحرک اور موٹی پگار لینے والے ورکرز کو بھی بے روزگار ہوتے دیکھا۔ کئی ورکرز نے پہلی دہائی کے آس پاس میڈیا کو خیر باد کہہ کر روزگار کے دیگر ذرائع اپنا لیئے۔

دیگر نجی سیکٹرزکی طرح الیکٹرانک میڈیا میں بھی مسلسل بے روزگاری کا خدشہ منڈلاتا رہتاہے۔ میڈیا میں ہر ورکر کو روز اپنی بہترین کارکردگی کیساتھ یہ ثابت کرنا ہوتا ہے کہ ادارے کو اسکی اشد ضرورت ہے۔

ورکرز دو طرح کے ہوتے ہیں ایک وہ جو کام میں مہارت حاصل کرنے اور مہارت دکھانے پر توجہ دیتے ہیں اس قسم کے ورکرز کی تنخواہیں نہایت کم رفتار سے بڑھتی ہیں۔ اگر ادارے سوئچ کرتے رہیں تو تنخواہ میں کچھ اضافہ ہوجاتا ہے۔ ایک ہی ادارے میں سالہا سال کام کرنے والے ورکرز کی آمدن میں مہنگائی کی شرح کی مناسبت سے اضافہ اتنا ہوتا ہے کہ مجموعی طور پر تنخواہ گراوٹ کا شکار نظر آتی ہے۔ اخراجات بڑھ جاتے ہیں اور آمدن کم رہتی ہے۔

دوسری قسم کے لوگ کام میں اتنے ماہر نہیں ہوتے لیکن وہ تیز طبع ہونے کی وجہ سے  اعلٰی افسران سے قریبی تعلقات اور اپنی شوخیءِ گفتار کے باعث ترقی کی راہیں کشید کرلیتے ہیں۔ یہ ان سیاستدانوں کی طرح ہوتے ہیں جن کی علمی صلاحیت تو کم ہوتی ہے لیکن سیاست کے گُر سیکھ کر وہ وزارت پاکر بیوروکریٹس کو ڈکٹیٹ اور رول کررہے ہوتے ہیں۔ میڈیا کا نظام یہی دوسری قسم کے لوگ کسی ماہر  اعلٰی افسر کی رہنمائی و قیادت میں چلاتے ہیں جبکہ کام وہ لوگ کرتے ہیں جو قابل ہونے کیساتھ سود و زیاں اور تنگیءِ داماں کا شکار رہتے ہیں۔ میرے مشاہدے میں یہ بات آئی ہے کہ تنخواہیں جب بڑھ کر چھ فگر کو چھوتی ہیں تو ادارے کوالٹی پر کمپرومائز کرکے کم خرچ کی پالیسی اپنا کر ڈاؤن سائزنگ کا موسم لے آتے ہیں۔ اور یوں اداروں کی انتظامیہ تبدیل ہوتے ہی چھ فگرز والے محنتی ورکرز کی چھانٹی شروع ہو جاتی ہے۔ یوں میڈیا ورکرز چار و ناچار دو دو یا تین تین لوگوں کا کام زیدہ اوقات کار کیساتھ اکیلے کررہے ہوتے ہیں تاکہ انکی نوکری جاری رہے۔ اسکے ساتھ ہی ان پر ذہنی تناؤ اور نوکری سے برخاستی کی تلوار لٹکتی رہتی ہے۔ اگر میں غلط نہیں تو چالیس سے پچاس فیصدی لوگ  ایک دہائی کے بعد میڈیا کی آمدن کو ناکافی جانتے ہوئے نئی راہوں کو نکل جاتے ہیں۔

میڈیا میں کام کی مہارت جنہوں نے حاصل کی انکے لیئے دیگر شعبہ جات میں میڈیا ایڈوائزری یا سوشل میڈیا ہینڈلنگ کے مواقع مل جاتے ہیں۔ یہ بھی اب اس لیئے ممکن ہوا کہ کم و بیش تمام بڑے نجی ادارے  سوشل میڈیا کو اپنے کاروبار کی ترقی کیلئے استعمال کرتے ہیں۔

میڈیا ورکرز اس ملک میں زیادہ ہیں لیکن انکے لیئے نشریاتی ادارے کم ہیں اوپر سے میڈیا ایجوکیشن کے  ہزاروں فارغ التحصیل طالب علم ہر سال انڈسٹری کو سالہا سال تک مفت یا نہ ہونے جیسی پگار کے عوض  اپنی خدمات دینے کیلئے بے چین ہیں۔ پاکستان میں میڈیا انڈسٹری کا سیلیری سسٹم نہ ہونے کی وجہ سے میڈیا مالکان تنخواہوں میں عدم اضافہ عدم ادائی یا تاخیر سے دینے جیسے حربے اپنا کر کام چلاتے ہیں۔ کئی کئی ماہ کی تنخواہیں بھی کئی ادارے ادا نہیں کرتے۔ اس سب کے باوجود جو مین سٹریم میڈیا کو اپنا کریئر بنانے پر بضد ہیں انہیں کئی گرم و سرد ندی نالے اور تپتی ریت جیسی رکاوٹیں سہنے کیلئے تیار رہنا ہوگا۔ لیکن میرا مشورہ یہ ہے کہ میڈیا کو بطور شوق جوائن کریں مستقل اور بہترین آمدن کے حصول کیلئے متوازی چھوٹا ہی سہی لیکن کوئی کاروبار یا دیگر ذریعہ آمدن لازمی اپنائیں تاکہ اس دن آپ کسی سنسان چوراہے پہ بے دست و پا نہ کھڑے ہوں جس دن آپ کی تمام تر صلاحیتوں اور قابلیت کا خراج اس نوٹ پر ملے گا

your services are no more required

واللہ خیر الرازقین۔(شکیل بازغ)۔۔۔

Facebook Comments

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں