تحریر: خرم علی عمران
پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا میں ایک بنیادی فرق تفہیم اور عوام تک رسائی کا بھی کہا جاسکتا ہے۔ مطلب یہ کہ پرنٹ میڈیا چاہے وہ اخبارات ہوں، رسالے ہوں یا کتابیں انکی تفہیم کے لئے بندے کا خواندہ یا پڑھا لکھا ہونا ضروری ہے، لیکن الیکٹرانک میڈیا میں کیونکہ آواز کے ساتھ تصویر بھی ہوتی ہے اس لئے ہر ذہنی سطح کا ناخواندہ شخص بھی اس کی تفہیم نسبتا آسانی سے کر سکتا ہے،تقریبا ہر شخص ٹی وی، موبائل اور نیٹ تک با آسانی رسائی بھی رکھتا ہی ہےاور پھر آواز و تصویر کے ملاپ سے کوئی بات جس طرح ہر ذہنی سطح کے بندے کو سمجھ آسکتی ہے وہ صرف تحریر سے ممکن نہیں۔اس تمہید کے بعد مجھے الیکٹرانک میڈیا کی تعریف میں کچھ لکھنا ہے، یاد رہے یہ قطعا طنز نہیں ہےبلکہ الیکٹرانک میڈیا کے چند ایسے احسانات کا تذکرہ ہے جو اس الجھی ہوئی، منتشر اور کم قسمت قوم کے لئے گویا کسی نعمتِ غیر مترقبہ سے کم نہیں ثابت ہوئے، اور ہمارے عوام کا بیشتر طبقہ جو کم خواندہ اور ناخواندہ اور عمومی غربت و جہالت کا شکار ہونے کی وجہ سے بے حسی کی چادر اوڑھے غفلت کی میٹھی نیند سونے کےعادی ہوچکا تھا انہیں کم از کم بیداری و شعور کے چند چھینٹے تو ملے۔۔
میڈیا کا سب سے بڑا احسان میری ناقص رائے میں ہمارے عوام کو ان کے چھوٹے بڑے رہبران، قائدین، لیڈران کے اصلی چہروں سے روشناس کرانا اور ان کے سرخ و سفید چہروں پر سجی مصنوعی عوامی ہمدردی کا نقاب اتارنا ہے۔ سارے سیاستدان برے نہیں پر جس طرح ہر طبقے میں اچھے برے یا سفید بھیڑوں میں کالی بھیڑیں شامل ہوتی ہیں کم قسمتی سے ایسے ہی بہت سارے لوگ بہت سے معروضی و تاریخی اسباب، حالات اور واقعات کی وجہ سے دنیائے سیاست میں نسلوں سے دندناتے پھر رہے ہیں۔ ملکی وسائل کو شیر مادر کی طرح ہضم کرنا اور عوام کو طفلِ تسلیوں کا ڈوز دیتے رہنا ان کا خاص وصف ہوتا ہے۔ یہ نام نہاد طبقہء شرفا و رہبران کئی طرح کے نقابوں میں خود کو چھپائے ہوئے تھا، بظاہر یہ عوام کے دکھوں اور الجھنوں کو دور کرنے کے لئے دن رات کام کرتے نظر آتے تھے اور ہیں مگر دراصل ان کی بد نیتی سے بھری یہ بے معنی سی کاوشیں، کوششیں اور پھرتیاں بلکل اس بندر کی مثال ہیں جسے کسی جنگل کے جانوروں نے شیر کے مر جانے کے بعد نہ جانے کیوں بادشاہ بنا دیا تھا، جب پڑوس کے جنگل والوں کو معلوم ہوا تو کہ فلاں جنگل کا بادشاہ اب کوئی خونخوار شیر نہیں بلکہ ایک پھرتیلا سا بندر ہے تو ان کی تو رال ٹپک گئی اور وہ اس جنگل پر قبضہ کرنے کے ارادے سے چلے،مخبروں نے خبر دے دی کہ فوج آ رہی ہے، سب ساکنانِ جنگل دوڑے ہوئے بندر بادشاہ کے پاس پہنچے کہ جانب والا دشمن بڑھا چلا آرہا ہے کچھ کیجئے، بندر بادشاہ نے پر اعتماد لہجے میں انہیں تسلی دی اور ایک درخت سے دوسرے اور دوسرے سے تیسرے اور تیسرے سے پھر پہلے درخت پر بڑے جوش و خروش سے چھلانگیں مارنا شروع کردیں۔۔ گھنٹوں گزر گئے مگر بندر بادشاہ اسی جوش وخروش سے مستانہ وار چھلانگیں لگاتے رہے آخر کسی نے ہمت کرکے گزارش کی کہ سرکار دشمن بس آیا ہی چاہتا ہے خدارا کچھ تو کیجئے، ہانپتے ہوئے بندر بادشاہ نے طیش میں آکر کہا” اتنی بھاگ دوڑ کر تو رہا ہوں اور کیا کروں؟”
تو صاحبوں ہمارے ذمہ داران کی کوششیں بھی اسی طرح کی بندرانہ طفل تسلیاں ہی رہی ہیں۔۔ برسوں گزر گئے ،کاغذوں پر بڑے بڑے کام ہوگئےاوربظاہر راضی عوام کلاانعام ہوگئے مگر عملی طور پر کچھ نہ ہوا،ویسے تو بڑی بھاگ دوڑ ہوئی، ملکی غیر ملکی دوروں پر دورے کئے گئے، ہزاروں افتتاحی فیتے بھی کٹ گئے،ناموں کی تختیاں بھی لگ گئیں مگرعملا ہاتھ کچھ نہ آیا۔ اور مزے کی بات یہ کہ عوام بیچارے انہی پھرتیلوں کوہی اپنا سب سے بڑا غمخوار، ہمدرد اور نجات دہندہ برائے مسائل سمجھتے رہے ،اور وہ فطین بھی بظاہربڑی ہمدردی سے ٹسوے بہاتے ہوئے اس تاثر کو اجالتے اور اجاگر کرتے رہے۔ پر الیکٹرانک میڈیا نے ان کے باطن جس طرح بے نقاب کر کے رکھ دیئے وہ قابلِ صد ہزار تعریف ہے، اصل میں الیکٹرانک میڈیا ان جدی پشتی فراڈیوں کے لئے ذرا نئی سی چیز تھی تو انہیں سنبھلنے اور میڈیا کو مینج کرکے چلنے اورپاکستان میں اس نئے طرز کے ذرائع ابلاغ کو سمجھنےمیں کچھ وقت لگا اور اسی”کچھ “کے دورانیئے میں کراچی تا خیبر عوام نے ٹی وی پر ایسے ایسے تماشے اور ڈرامے دیکھے کہ انکی آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گیئں اور کچھ کچھ بات سمجھ میں انے لگی کہ یہ پیارے رہبران یہ قائدین تو ان کے اور انکی آئندہ نسلوں تک کے خرچے پر خوب مزے اڑا رہے اور عیاشیاں کر رہے ہیں اورانہیں تعصبات،توہمات، روزی روٹی اور کئی دیگر مسئلوں میں اس طرح الجھا کر رکھا ہوا ہے کہ وہ کچھ سوچنے سمجھنے کے قابل ہی نہ رہیں، بلاشبہ پرنٹ میڈیا بھی یہ کام برائے نقاب کشائی اپنی بساط کے مطابق کر رہا تھا مگر اس کی رسائی محدود تھی جبکہ الیکٹرانک میڈیا اور اب اس سے بھی بڑھ کر سوشل میڈیا نے جو شعور اور بیداری اپنی بے پناہ رسائی کے سبب لوگوں میں متعدد اعتبار سے پیدا کی ہے وہ بہت مفید ہے گو کہ اس ساسلے میں سنجیدہ طبقے کو کچھ تحفظات بھی ہیں جو یقینا اہمیت کے حامل ہیں۔۔
الیکٹرانک میڈیا کا دوسرا بڑا احسان پڑوسی ملک کی ثقافتی اور میڈیائی یلغار کا توڑ کرنا ہے، 80 کی دہائی میں وی سی آر اور لیڈ کے ذریعے سے پڑوس کی فلموں کی وبا کا آغاز ہوا اور اس میں شک نہیں کہ اس زہریلی یلغار نے ہمارے اس وقت کی نسلوں کوخاصا متاثر کیا، مجھے یاد ہے کہ رواں صدی کے آغاز میں مسز سونیا گاندھی نے ایک موقع پر بڑے اعتماد اور طنطنے سےیہ ارشاد فرمایا تھا کہ “ہمیں پاکستان پر فوجی لشکر کشی کی ضرورت ہی نہیں ہے، ہم انہیں اپنی ثقافتی یلغار سے ہی فتح کرلیں گے(یعنی فلموں اور ڈراموں کے پروپیگنڈے سے)”، پھر مزید نہلے پر دہلہ 2000 کی دہائی کے اوائل سے سے پڑوسی ملک کے ڈرامہ چینلز کی پاکستان میں آمد اور آزادانہ نشریات نے مارا،ہماری فلم انڈسٹری تو ویسے ہی لب دم تھی، کچھ ڈراموں کا بھرم باقی تھا کہ پاکستانی ڈرامے خاصے کی چیز اور بہت زبر دست ہوتے ہیں،لیکن سطحی کہانیوں پر مشتمل پڑوس کی ڈراموں نے اپنی چمک دمک اور بھڑک سے اس تاثر کوبھی دھندلانا شروع کردیا، اکیلا پی ٹی وی ان کے سیلاب کے سامنے ذرا ہلکا پڑ گیا تھا، مگر ہمارے الیکٹرانک میڈیا کے انٹرٹینمنٹ اور انفوٹینمنٹ سگمنٹ نے مسلسل محنت اور کوشش سےآخرکار ان کا یہ سحرنہ صرف توڑابلکہ پاکستانی ڈراموں اور شوز کی برتری کو ایک مرتبہ پھر ثابت کرکے دکھا دیا،افسوس! کہ مسز سونیا گاندھی کا خواب شرمندہء تعبیر نہ ہوسکا، بلکہ ہمارے فنکاروں اور پروگراموں کی الٹا انڈیا میں دھوم مچ گئی۔باتیں تو اور بھی کئی ہیں،مگر وہ بعد میں کریں گے۔ فی الحال تو ہمارے پیارے سے میڈیا کی ان دو اداؤں پراسکی باقی تمام خطائیں معاف کردینے کا دل کرتا ہے۔۔ براوو پاکستانی الیکٹرانک میڈیا تجھے سلام۔۔۔۔(خرم علی عمران)۔۔