تحریر: بادشاہ خان
اگر چہ صحافی تنظیمیں الیکٹرونک میڈیا میں مالکان کی جانب سے پری پلان اور منظم انداز سے جبری برطرفیوں کے خلاف میدان میں آچکی ہیں ، ان کے جانب سے بیانات بھی اخبارات میں شائع ہورہے ہیں ،مگر اس کے اثرات سامنے نہیں آرہے ، میڈیا مالکان یکجا ہیں ،اور صحافتی تنظیمیں الگ الگ ،؟صرف چند روز میں کئی بڑے میڈیا گروپس نے سینکڑوں افراد کو بغیر نوٹس دئیے نکال دیا ، ان چینلز میں جیو سے لیکر بول تک سب شامل ہیں ، اور بول نے تو حد کردی ،بول نے ایک ایک دن میں دو دوسو افراد کو بے روزگار کردیا ،ٹوٹل تعداد ہزار سے اوپر ہے اور جب یہ کالم تحریر کررہا ہوں ،اس وقت بول سمیت کئی چینلز کے سامنے جبری برطرفیوں کے خلاف نکالے جانے والے ملازمین اور صحافیوں کا احتجاج جاری ہے ، مگر سوال یہ ہے کہ صحافیوں کی حقوق کے لئے کام کرنے والی تنظیمیں کہاں ہیں؟ ان کا ردعمل موثر ثابت کیوں نہیں ہورہا ؟ ان کے اندر اتفاق و اتحاد کب پیدا ہوگا؟صحافیوں کے بنیادی حقوق،کرادرکی اہمیت ، ویج بورڈ ،جبری برطرفیاں ،تنخوا کی عدم ادائیگیوں سمیت کئی معاملات پر بحث مباحثے ہوتے ہیںِ ،کنونشن منعقد ہورہے ہیں ،ایک بات تو واضح تھی اور مزید سامنے آئی کہ صحافی برادری سے اپنے بھی خفا ہیں اور اغیار بھی نا خوش ہیں،، ہم کئی بار لکھ چکے ہیں،کہ اپنے کردار پر بھی توجہ دینی ہوگی ،میڈیا قوانین سب پر لاگو کرنے ہونگے جس سے عوام ،حکومت اورصحافی کے بنیادی حقوق کا تحفظ ہوسکے ، مگر ایسا نہ ہو؟ جس کی وجہ سے آج ملک کے طاقتور ستون کا کارکن بے یارو مددگار ہے ؟ہماری صحافی کولیگ عادیہ ناز نے ایک پوسٹ شئیر کی ہے،اگر چہ یہ ایک چینل کے بارے میں ہے مگر یہی حال دیگر چینلز کا بھی ہے۔۔
مارچ سے ابتک کئی چینلز نے سینکڑوں ملازمین فارغ کردئیے ،جس کے کئی مقاصد ہیں ، حکومت کے خلاف احتجاج پر مجبور کرنا ، حکومت کو بلیک میل کرنا ، اور حکومت سے اشتہارات حاصل کرنے جیسے کئی باتیں مارکیٹ میں گردش کررہی ہیں جن کے جوابات حکومت ،میڈیا مالکان نے دینے ہیں، مگر ان میں سے چند کے جواب صحافیوں کی تنظیموں کے پاس ہیں ، ،صحافی تنظیموں اور صحافیوں کو کیا کرنا چاہے ؟ ہم آج تک ویج بورڈ ،جبری برطرفیوں اور تنخواہوں کی عدم ادائیگیوں کے لئے پریس کلبز کے باہر مظاہرے کرتے آرہے ،اس طرح جبری برطرفیوں سے صحافیوں کے گھروں کے چولہولے نہیں بجے رہے؟ ،کیا مالکان کی ذاتی جنگ میں صحافی کو اپنا صحافیانہ کردار بھول جانا چاہیے؟یہ سب کچھ لکھنے کا بنیادی مقصد یہ ہے کہ بحیثت صحافی ہم اپنا احتساب بھی کریں ،ہمیں بھی اپنا مثبت کردار ادا کرنا ہوگا ، ورنہ کسی روز آپ کو بھی اچانک ادارے سے فارغ کیا جاسکتا ہے ، ذرا سوچیں ؟(بادشاہ خان)۔۔