سینئر صحافی، کالم نویس اور تجزیہ کار ایاز امیر کا کہنا ہے کہ ۔۔اسلام آ باد ہائیکورٹ کے ججوں نے جو ہمت دکھانی تھی دکھا دی اور وہ کر دیا جس کی نظیر ہماری تاریخ میں کم ہی ملتی ہے۔ لیکن یہ کوئی اور ملک نہیں مملکتِ خداداد ہے اور اس کے طور طریقے اپنے ہی ہیں۔ یورپ یا امریکہ میں ایسا خط لکھا جاتا تو واقعی بھونچال آجاتا۔ یہاں ایک آدھ دن کے لیے بھونچال رہا اور ہم جیسوں نے یہ اُمید لگانا شروع کر دی کہ اسلام آباد کے ججوں کی پکار کے بعد وکلا برادری میں ایسی آگ بھڑک اُٹھے گی کہ 2007ء والی تحریک کی یاد پھر سے تازہ ہو جائے گی۔ ہم جیسوں کا ہمیشہ یہی پرابلم رہا ہے کہ تنکوں کی تلاش میں رہے۔ تھوڑی سی ہوا چلی تو اُمید باندھ لی اور ہوا تھمی تو اُمیدیں بھی بیٹھ گئیں۔دنیانیوز میں اپنے تازہ کالم میں ایاز امیر لکھتے ہیں کہ ۔۔لیکن وکلا داد کے مستحق ہیں کیونکہ سمجھدار ہو گئے ہیں۔ ویسے بھی یہ 2007ء نہیں اور الیکٹرانک میڈیا میں بھی بہت سمجھداری آ چکی ہے۔ وہ دن گئے جب وکلا تحریک کے دوران کہیں تقریری مقابلہ ہوتا تو ہمارے دوست علی احمد کُرد جیسے شعلہ بیاں مقرر یہ کہتے سنائی دیتے کہ قبر میں ہوں گے تو وہاں سے بھی آواز آئے گی ”گو مشرف گو‘‘۔ کُرد صاحب کے چاندی جیسے بال ماتھے پہ گرتے اور پھر ایک ڈرامائی جھٹکے سے چاندی جیسے بال پیچھے کیے جاتے اور شعلہ بیانی پھر سے شروع ہو جاتی۔ کیا دن تھے وہ‘ ٹی وی کیمرے دن رات چلتے تھے‘ وکلا برادری کی ان کیمروں سے پہلی شناسائی ہو رہی تھی۔ کیمرے چلتے تو بہادر وکلا سامنے کھڑے ہو جاتے اور پھر ہٹنے کا نام نہ لیتے۔ جو صورت بھی تھی ٹی وی چینلوں کو کوئی ایڈوائس نہیں جاتی تھی کہ فلاں کو دکھاؤ فلاں کو نہیں۔ چینلوں کو مکمل آزادی تھی اوروکلا تحریک کے جیالوں کے جذبات دیکھنے سے تعلق رکھتے تھے۔آج حالات ہی اور ہیں۔ ہر طرف سمجھداری ہی سمجھداری ہے۔ سمجھداری کا دوسرا نام حقیقت پسندی ہے۔لگتا ہے سب حقیقت پسند ہو گئے ہیں۔ اور وکلا برادری کی سمجھداری تواتنی انتہا کو پہنچ چکی ہے کہ گو قانون وآئین کے ساتھ تقریباً وہ ہورہا ہے جو ہلاکو خان کے ہاتھوں بغدادکے ساتھ ہوا لیکن مجال ہے کہ ماتھوں پر کوئی شکن آتی ہویا بہادر دلوں میں خوئے بغاوت جنم لے ۔ وکلا برادری کا ایک بڑا حصہ (ن) لیگ سے اثرلیتا ہے اور (ن) لیگ کا شعار مصلحت پسندی بن چکا ہے۔