تحریر: امجد عثمانی۔۔
کچھ ہفتے ہوئے ایک نجی ٹی وی سے وابستہ ایک دوست نے کہا کہ ہمارے نیوز چینل کو کچھ “کاپی ایڈیٹرز” کی ضرورت ہے۔۔۔۔۔اگر کوئی دوست ہو “سی وی”بھیجیے گا۔۔۔۔میں نے شکریے کے ساتھ ایک اخبار کے بہترین سب ایڈیٹر کے کوائف بھیج دیے۔۔۔۔۔
کچھ دن گزرے،میں نے پراگریس پوچھی تو انہوں نے بڑا دل چسپ جواب دیا۔۔۔۔۔۔کہنے لگےہمارے “کنٹرولر نیوز” کہتے ہیں کہ وہ “اخبار کا بندہ” ہے۔۔۔۔۔میں نے قہقہہ لگایا اور کہا حضور والا! میں۔۔۔۔آپ۔۔۔ اور “موصوف” بھی اخبار کے بندے ہی ہیں۔۔۔۔۔۔
پاکستان کے نو عمر الیکٹرانک میڈیا کے چند دوستوں کا یہ مغالطہ بڑا ہی مضحکہ خیز ہے۔۔۔مغالظے سے بھی زیادہ یہ احساس برتری یا احساس برتری کا روپ دھار گیا ہے۔۔۔۔اسے “بہروپ” بھی کہا جا سکتا ہے۔۔۔۔۔
پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا۔۔۔۔۔۔مین سٹریم میڈیا کے “دو بازو “ہیں۔۔۔۔۔اور ان کے نیوز اور رپورٹنگ سیکشن کا نظم بھی انیس بیس کے فرق سے ملتا جلتا ہے۔۔۔۔۔اخبارمیں ایڈیٹر ۔۔۔۔نیوز ایڈیٹر اور سب ایڈیٹرز تو ٹی وی میں ڈائریکٹر نیوز۔۔۔۔۔کنٹرولر نیوز اور کاپی ایڈیٹرز ہوتے ہیں۔۔۔۔۔۔تکنیکی طور پر نیوز چینلز کی طرح اب اخبارات میں بھی کمپیوٹر سسٹم ہے۔۔۔۔ٹی وی کی طرح ہر اخبار میں کوئی نہ کوئی” سافٹ وئیر” چل رہا ہے ۔۔۔۔۔اگر کوئی فرق ہے تو وہ چند ایک اصطلاحات اور انداز بیان کا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔
اخبار میں خبر کی سرخی۔۔۔ضمنی اور متن ہوتا ہے۔۔۔۔۔ٹی وی میں سرخی کی جگہ “او سی” اور متن کو” وی او” کہتے ہیں۔۔۔میرے خیال میں اخبار کا وہ سب ایڈیٹر جو صرف دو کالم اچھی خبر بنا سکتا ہے وہ ایک ہفتے کی ٹریننگ کے بعد بہترین کاپی ایڈیٹر بن سکتا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔یہی صورت حال رپورٹنگ کی ہے ۔۔۔۔اخبار کا جو رپورٹر اچھی خبر بنا سکتا ہے۔۔۔۔وہ چند دن کی پریکٹس کے بعد اچھا بول بھی سکتا ہے۔۔۔۔۔۔جو۔۔۔ لائیو۔۔۔ایز لائیو اور بیپر کہلاتا ہے۔۔۔۔۔۔۔ہاں پروگرامنگ قدرے مختلف جاب ہے لیکن وہاں بھی تھوڑا بہت اخبار کا فورم جھلکتا ہے۔۔۔۔۔
یہ قصہ نہیں تجربہ ہے۔۔۔۔۔۔دو ہزار چودہ کے آواخر کی بات ہے۔۔۔۔میں ان دنوں روزنامہ جناح کا نیوز ایڈیٹر تھا ۔۔۔۔۔۔مجھے دھیمے انداز کے سنجیدہ صحافی دوست برادرم عمران یعقوب کا فون آیا ۔۔۔۔۔عمران صاحب سے ادب و احترام کا دیرینہ تعلق ہے۔۔۔۔۔۔کہنے لگے کہ ہم ایک نیوز چینل لانچ کرنے جا رہے ہیں۔۔۔۔آپ مجھے ملیں،آپ سے ایک مشورہ کرنا ہے۔۔۔۔۔۔۔
ملاقات ہوئی تو عمران یعقوب صاحب کہنے لگے میرا خیال ہے کہ اخبارات کے نیوز ایڈیٹرز اور سب ایڈیٹرز” کانٹینٹ ” میں زیادہ مہارت رکھتے ہیں۔۔۔۔۔۔میں چاہتا ہوں کہ ہم کاپی کے لیے اخبارات کے بندے لیں اور ایک آدھ مہینہ ٹریننگ دیکر انہیں میدان میں اتار دیں۔۔۔۔۔وہ زیادہ اچھا رزلٹ دینگے۔۔۔۔میں نے ان کے آئیڈیا سے سو فیصد اتفاق کیا۔۔۔۔۔۔
یہ چینل تھا 92نیوز ۔۔۔۔۔پھر ہم نے مل کر “عمران یعقوب فارمولے”پر کام کیا اور کئی ایک نیوز ایڈیٹر اور سب ایڈیٹر لیے ۔۔۔۔۔انہیں ٹریننگ دی اور ٹی وی لانچ کر دیا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
عمران یعقوب فارمولہ کلک ہوا۔۔۔۔۔۔۔۔بہترین کانٹینٹ نے 92نیوز کو چار چاند لگا دیے اور چند ہی مہینے میں یہ چینل صف اول میں آگیا۔۔۔۔۔میرے خیال میں 92نیوز کی کامیابی کا کریڈٹ کافی حد تک عمران یعقوب کے اس فارمولے کو جاتا ہے کہ میڈیا بزنس آف ورڈز ہے۔۔۔الفاظ لکھنے پڑھنے آئیں گے تو کاروبار چلے گا۔۔۔۔۔میں اور میرے “مذکورہ دوست” نے 92 نیوز میں ہی پہلی مرتبہ کسی ٹی وی چینل کا منہ دیکھا۔۔۔(امجد عثمانی)۔۔