سینئر صحافی انصار عباسی کا کہنا ہے کہ ۔ جوں جوں انتخابات کا وقت قریب آ رہا ہے یہ خوف بڑھتا جا رہا ہے کہ پاکستان کا کیا بنے گا؟ یہ رائے عام سننے میں مل رہی ہے کہ جن حالات میں اور جس انداز میں انتخابات کرائے جا رہے ہیں اُس کے نتیجے میں پاکستان میں سیاسی عدم استحکام بڑھے گا اور اگر سیاسی عدم استحکام بڑھتا ہے تو اُس سے معاشی عدم استحکام بھی بڑھے گا۔ اس وقت ہمارے سامنے انتخابات کے حوالے سے دو صورتیں نظر آ رہی ہیں۔ اگر انتخابات صاف شفاف انداز میں کروائے جاتے ہیں تو ممکنہ طور پر 9مئی والے اقتدار میں آ جائیں گے اور اگر انتخابات موجودہ انداز میں ’’آزادانہ‘‘ کروائے جاتے ہیں تو شاید پاکستان کی تاریخ کے سب سے زیادہ انجینئرڈ انتخابات ہوں گے، جس میں اکثریت کو اقلیت اور اقلیت کو اکثریت میں بدل دیا جائے گا ۔ روزنامہ جنگ میں اپنے تازہ کالم میں انصار عباسی لکھتے ہیں کہ ۔۔ جس ’’آزاد‘‘ انداز میں اس وقت انتخابات کروائے جا رہے ہیں اُس پر پہلے ہی سوال اُٹھنا شروع ہو گئے ہیں اور یہ کہا جا رہا ہے کہ شاید ملک کی تاریخ کے یہ سب سے بڑے انجینئرڈ الیکشن ہوں گے۔ یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ انتخابات کے جھنجھٹ میں پڑنے کی کیا ضرورت ہے، قوم کے پچاس ارب روپے ضائع کرنے کی بھی کیا ضرورت ہے، سیدھا سیدھا جسے وزیراعظم بنانا چاہتے ہیں اُس کا نوٹیفیکیشن جاری کر دیں۔ تحریک انصاف کے مطابق اُن کے 90فیصد رہنمائوں کے کاغذات نامزدگی مسترد کر دیے گئے ہیں۔تحریک انصاف کا بلے کا نشان رہے گا یا نہیں اس پر بھی ابھی کچھ نہیں کہا جا سکتا۔کہا جا رہا ہے کہ جو بھی ہو، تحریک انصاف جتنی بھی مقبول ہو، اُسے انتخابات نہیں جیتنے دیا جائیگا۔ اب ایسے انتخابات کے نتیجے میں ن لیگ اور دوسری جماعتیں ممکنہ طور پر حکومت بنائیں گی لیکن ایسی حکومت جو اتنے متنازع انتخابات کے نتیجے میں وجود میں آئے گی توکیا وہ ملک میں سیاسی استحکام کا موجب بن سکے گی؟