wazir e ittelaat punjab ke naam

الیکشن اور ریڈلائن

تحریر: سید بدرسعید

لاہور پریس کلب کا الیکشن جیتنا باعث افتخار ہے لیکن کہیں نہ کہیں دکھ بھی دے گیا۔ سنا تھا کہ ایسے موقع پر انسان کو دوستوں کا اندازہ ہوتا ہے سو اندازہ تو ہو گیا ہے۔ استاد اور بھائی سینئر صحافی رؤف کلاسرا صاحب نے میری محنت میں لاہور سے اپنے بھانجےطاہر کلاسرا کی ڈیوٹی لگا دی اور وہ سادہ دل خوبصورت انسان پی ٹی وی سمیت ہر جگہ میری کمپین کرتا رہا ۔ الیکشن ڈے پر سینئر آ کر بتاتے رہے کہ میاں تمہیں تو نہیں جانتے لیکن ملتان کی فلاں شادی میں ہمارے دوست رؤف نے حکم دیا تھا کہ سب بدر سعید جو ووٹ دیں سو ووٹ دے دیا گیا۔ اے آر وائے کے سینئر رپورٹر عابد خان بھائی نے تو خیر الیکشن لڑنے کا حکم دیا تھا ۔ روزنامہ جہان پاکستان کے میگزین ایڈیٹر عقیل انجم اعوان نے بڑے بھائی ہونے کا حق ادا کر دیا۔ روزنامہ پاکستان کے گروپ ایڈیٹر ایثار رانا بھائی نے بھرپور کمپین کی، ایکسپریس کے کالم نگار و سینئر صحافی اعجاز حفیظ خان نے میری جیت کو اپنی عزت کا مسئلہ بنا لیا اور الیکشن کی رات جب تک رزلٹ نہیں آیا تب تک پوچھتے رہے۔ سابق جوائنٹ سیکرٹری پریس کلب میرا یار حسن تیمور جکھڑ نہ ہوتا تو شاید میں لکھ رہا ہوتا کہ الحمد اللہ آج تک جس جس کا الیکشن لڑا وہی میرے الیکشن میں لائن کے دوسری طرف تھا۔ اسعد نقوی نے سارا دن اپنے قدم نہ چھوڑے، ایمرا نیوز کی کانٹنٹ ہیڈ ملیحہ سید اور نجف کی راہنما فرزانہ چودھری نے بھرپور سپورٹ کی۔ میاں نصیر، علی رضا رحمانی، حسین اعجاز عاشر، ناصر زیدی، سجاد اعوان ، محمد اکرم، طفیل شریف، سید آصف و دیگر کئی دوستوں کی بھرپور محبت ملی۔ حافظ شفیق الرحمن نے دبنگ انداز میں امیدواروں سے کہا کہ میں صرف ایک ووٹ ڈالنے آیا ہوں اور وہ سید زادے کا ہے، یہی انداز حیدر جاوید سید صاحب کا تھا

دوسری جانب ایسا بھی ہوا کہ بقول شاعر جن پہ تکیہ تھا وہی پتے ہوا دینے لگے۔ ایک مخصوص حلقہ سے جڑے انتہائی قریبی دوستوں نے اعلانیہ مخالفت کی، جن کی امید تھی کہ کمپینر ہوں گے وہ ووٹر بھی نہ نکلے اور جن کے بارے میں لگتا تھا کہ بس سلام دعا کی حد تک واقفیت ہے وہ ساتھ آ کھڑے ہوئے۔ کچھ رفیق ایسے تھے کہ غیر جانبدار یا سرد مہری کی حد سے آگے نکل کر ہروانے پر توانائیاں خرچ کرتے رہے ۔ یقین مانیں الیکشن تو میں اسی روز ہار گیا تھا جب یہ چہرے ایکسپوژ ہوئے۔ ہم جسے زاد راہ سمجھے وہ کشتی کے بھاری پتھر نکلے۔ چند ایک کو معلوم ہے کہ میں نے یہ چہرے عیاں ہوتے ہی کہا تھا کہ الیکشن سے ریٹائر ہو جاتا ہوں؟ جان سے پیاروں نے منع کر دیا کہ اب قدم اٹھا لیا ہے تو اپنی جنگ لڑ لیتے ہیں۔ زیادہ سے زیادہ کیا ہو گا؟ ہار جاو گے؟ تو دستبرداری بھی شکست ہی کی علامت ہے۔ بہرحال آخری تین دن کی سٹریٹیجی تبدیل کی،الیکشن لڑا اور پھر اپنوں کے سر پر لڑا ۔ پولنگ ختم ہوئی تو انہی دوستوں کے ساتھ انارکلی جا کر کالی مرچ میں سپیشل چکن کڑاھی تیار کروائی اور یاروں کے ساتھ مل کر تسلی سے کھانا کھایا،پھر گھر آ کر اطمینان سے سو گیا۔ ماضی میں پولنگ کے بعد رات جاگ کر گزرتی تھی کہ جانے کیا رزلٹ ہو، اس بار اپنا الیکشن تھا تو اطمینان سے سو گیا۔ رات دو بجے اسعد نقوی نے آ کر جگایا اور کہا اٹھ جائیں پریس کلب جانا ہے، آپ جیت گئے ہیں (سید بدر سعید)

Facebook Comments

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں