ahtesab re ahtesab

‏الیکشن کا فیصلہ مہنگائی کرے گی

تحریر: عادل علی

یہ رواج اب بدلنا ہوگا کہ الیکشن کا ماحول بنتے ہی عوامی نمائندگان کو اپنے حلقوں کے عوام کی یاد ستائے گی اور ترقیاتی کاموں کا جال بچھا دیا جائیگا۔

الٹا یہ اچانک ہونے والی افتاد زحمت بن جاتی ہے کہ عوام کو ترقیاتی کاموں کے باعث مشکلات کا سامنا کر پڑ جاتا ہے۔

بغیر مناسب پلاننگ کے کسی بھی کام کو نہ تو ٹھیک سے کیا جا سکتا ہے نہ اس سے دیرپا نتائج حاصل کیے جاسکتے ہیں ہاں اب یہ الگ بات ہے کہ ہمارے ہاں لانگ ٹرم پلاننگ کا کانسیپٹ ہی نہیں ہے ہم محض عوام کو الیکشن سے الیکشن تک محدود رکھنا چاہتے ہیں اور شارٹ ٹرم اسٹریٹجی کے تحت اتنا کام کرنا چاہتے ہیں جتنا ایک سال کے بجٹ کو جسٹیفائی کرنے کے لیے کافی ہو۔

موجودہ مخلوط حکومت کی مدت پوری ہونے کو ہے۔ سیاسی جماعتیں الیکشن کے لیے ذہنی طور پر تیاری کر رہی ہیں۔ بظاہر عوام کو تاثر دیا جا رہا ہے کہ سیاسی جماعتوں کے مابین اتحاد قائم ہے مگر اندرون خانہ ہر جماعت اپنے اپنے سر پر اقتدار کا سہرہ سجانے کی جنگ میں مصروف ہے۔

نون لیگ اپنے تمام تر پراجیکٹس کا کریڈٹ انکیش کروانا چاہتی ہے پیپلز پارٹی سیلاب میں ہنگامی اقدامات خارجہ محاذ پر بلاول بھٹو کی پذیرائی و سندھ حکومت کی کارکردگی کی بنیاد پر عوام میں جانا چاہتی ہے مولانا فضل الرحمان بطور سربراہ پی ڈی ایم نون لیگ سے نالاں معلوم ہوتے ہیں۔ جبکہ کے پی کے میں اے این پی جے یو آئی ف کو دانت کھٹے کرنے کی تڑیاں لگا رہی ہے۔

میڈیا ہاوسز پر یہ بحث زیر غور ہے کہ عمران خان اگلے الیکشن میں ہونگے، نہ ہونگے انہیں سزا ہوگی یا نہیں مگر انہیں مقتدر حلقوں کا عمران خان کے بارے میں دہرا معیار نظر نہیں آرہا۔

جماعت اسلامی کراچی کی میئرشپ کے سوگ اب تک نکل نہیں پائی نہ انہیں اب تک نیا “اشارہ” موصول ہوا ہے۔

ایم کیو ایم ایک بار پھر الگ صوبے کا پلے کارڈ تھامے میدان میں سرگرم عمل ہونا چاہتی ہے مگر اس غبارے میں اب ہوا باقی نہیں رہی۔

گزشتہ دنوں کراچی میں ایم کیو ایم لندن کے پاور شو کو ہوسٹ کروا کر دیگر جماعتوں کو یہ پیغام دیا گیا کہ مشتری ہوشیار باش! ہوتا وہی ہے جو ہم چاہتے ہیں لہذا جہاں اشتہاری قرار دیے جا چکے اسحاق ڈار نون خان ایئر بیس پر لینڈ کر سکتے ہیں تو مظلوموں کے ساتھی الطاف حسین کے “ہیلو” کی آواز بھی پھر سے گونج سکتی ہے۔الغرض سیاسی منظر نامہ اس وقت اپنی اپنی بقا کی جنگ لڑنے میں مصروف دکھائی دیتا ہے پر عوام آئے دن بڑھتی ہوئی مہنگائی کے پاتھوں پستے چلے جارہے ہیں۔

پرائیس کنٹرول محکمہ مکمل ناکام ثابت ہو رہا ہے مثال آپ حالیہ دودھ کی مقرر کردہ قیمت اور قیمت فروخت سے ہی لگا لیں کہ حکومتی رٹ کتنی موثر ہے۔

سیاسی جماعتیں اپنی جوڑ توڑ کر لیں مگر ووٹر ٹرن اوور نعروں اور سیاسی وابستگیوں کی بنیاد پر نہیں نکلے گا۔ ووٹر اس جماعت کے سر پر تاج سجائے گا جو حقیقی معنوں میں مہنگائی کے جن کو واپس بوتل میں بند کریگی اور عوام کو صحیح معنوں میں رلیف فراہم کرے گی بصورت دیگر میڈیا ہاوسز پر الیکشن سے زیادہ عمران خان سے متعلق بحث پر ٹی آر پی کے حصول سے اندازہ لگا لیں کہ عوام الیکشن کے بارے میں کتنا کنسرنڈ ہیں۔۔(عادل علی)

Facebook Comments

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں