تحریر : علی عمران جونیئر
دوستو،برقی اور ورقی یعنی پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کے ساتھ ساتھ سوشل میڈیا پر ان دنوں صرف اور صرف تحریک عدم اعتماد کا چرچا ہے۔۔ ملک دو حصوں میں بٹا ہوا لگ رہا ہے، ایک حصہ سمجھتا ہے کہ ملک میں کپتان کی تبدیلی ناگزیر ہوچکی ہے، دوسرا حصہ کہتا ہے، سارے کرپٹ ایک ایماندار لیڈر کو ہٹانے کیلئے اکٹھے ہوگئے ہیں۔۔ باباجی الگ ہی کہانی سناتے ہیں۔۔ ان کا دعویٰ ہے کہ ۔۔ اپوزیشن کی بھاگ دوڑ کا ’’ککھ‘‘ کوئی نتیجہ نہیں نکلنے والا، کپتان سے کچھ باتیں منوانی ہیں ، کپتان اگر مان جاتا ہے تو پیالی میں اٹھنے والا طوفان ازخود بیٹھ جائے گا۔۔ کپتان اگر نہ مانا تو پھر بھی شرائط کچھ نرم کرکے کپتان کو منانے کی بھرپور کوشش کی جائے گی۔۔ باباجی نے اپنی اس تھیوری کو مزید مضبوط کرنے کے لئے یہ موقف بھی اختیارکیا کہ۔۔ مان لیتے ہیں اپوزیشن ٹھیک کہتی ہے کہ کپتان نے ساڑھے تین سال میں نااہلی کا مظاہرہ کیا، کچھ بھی پرفارمنس نہیں دکھائی، عوام کو ڈلیور نہ کرسکا، لیکن اب جب کہ اس کا یہ آخری سال ہے، اگر کپتان کو حکومت سے نکال باہر کیا جاتا ہے تو وہ سیاسی شہید بن جائے گا، اگلے الیکشن میں وہ مزید طاقت کے ساتھ واپس آجائے گا۔۔اس لئے اپوزیشن کے لئے مفت مشورہ ہے کہ جس طرح وہ دوہزار اٹھارہ سے اب تک کپتان کو برداشت کرتے چلے آئے ہیں ایک سال اور کرلیں، کپتان کی پچھلی پرفارمنس سے لگتا ہے کہ وہ رواں سال بھی کچھ نہیں کرسکے گا، اس لئے اگلے الیکشن میں اس کا کوئی چانس نہیں بن سکے گا۔۔
ہمارے ملک کا بھی عجیب ہی حال ہے۔۔ سردیاں ہوں تو گیس کی قلت ہوجاتی ہے۔۔ابھی کراچی میں گرمیوں کا آغاز بھی ٹھیک سے نہیں ہوا، بجلی کی لوڈشیڈنگ شروع ہوگئی۔۔اس بار تو سردیوں میں بھی لوڈشیڈنگ دیکھنے میں آئی، جب پوچھا کہ ایساکیوں ہے؟ تو جواب ملا۔۔دھند کے باعث بجلی کو صارفین تک پہنچنے کا راستہ نہیں مل رہا جس کی وجہ
سے لوڈشیڈنگ کا سامنا ہے۔۔لوڈشیڈنگ کے ستائے ہمارے ایک دوست نے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ اگر حکومت لوڈشیڈنگ ختم نہیں کرسکتی تو کم سے کم ڈبل روٹی کا پہلا پیس ہی ختم کرادے عوام کو اس کی بھی کوئی ضرورت نہیں ہوتی۔۔ویسے یہ بھی اپنی جگہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ جس ملک میں کرنسی نوٹ کی اصلیت جانچنے کے لئے اسے تھوک لگا کر انگلیوں سے مسلا جاتا ہو ، وہاں اچھا رشتہ ڈھونڈنا کسی عذاب سے کم نہیں۔ایک شخص نے کسی بزرگ سے پوچھا،حضرت جی! کوئی ایسا طریقہ بتائیں کہ اپنی ہر خامی کے بارے میں جان سکوں تاکہ اس کی اصلاح ہوسکے۔ بزرگ بولے ایسا کرو کہ اپنی بیوی کے پاس جاؤ اس کی ایک خامی بتاؤ، وہ تمہاری ساری خامیاں بمع تمہارے خاندان کے بتادے گی۔۔سیاست میں صرف ہمارا ہی بیڑا غرق نہیں۔۔ پڑوسی ملک بھارت کا بھی کچھ ایسا ہی حال ہے، جہاں واش روم کلچر نہ ہونے کی وجہ سے اس کی آدھی سے زیادہ آبادی ہر صبح سرجیکل سٹرائیک کرنے کے لئے کھیتوں کا رخ کرتی ہے۔۔دوست ملک سعودی عرب کی بات کریں تو سعودیہ نے پہلے تیل دیکھا تھا،اب تیل کی دھار دیکھ رہے ہیں۔۔ہمارے پیارے دوست اپنی تشویش کااظہار کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ۔۔ معلوم ہوتا ہے کہ سعودی شاہی خاندان میں اب صرف سلیم شاہی اور بالوشاہی ہی بچیں گے۔۔
کہتے ہیں کہ ۔۔مداری کے پاس کئی بندر ہوتے ہیں لیکن اس کا فیوریٹ وہی بندر ہوتا ہے جو ڈگڈگی پر اچھا ناچے، (یہ قطعی غیرسیاسی جملہ ہے اسے حالات حاضرہ سے قطعی نہ جوڑا جائے)۔۔خاوند جب بیرون ملک سے لوٹا توبیگم سے کہا، تمہارے لئے افریقہ سے بندرلایا تھا مگر وہ راستے میں ہی چھوٹ کر بھاگ گیا، بیوی نے بڑی معصومیت سے کہا، کوئی بات نہیں سرتاج، وہ نہ سہی آپ تو آگئے ناں۔۔کسی زمانے میں ایک بار جنگل میں الیکشن ہوئے،بندروں کی تعداد زیادہ ہونے کی وجہ سے بندر بادشاہ بن گیا۔۔ شیر کو اپنی ہار پر بہت افسوس ہوا، ایک دن اس نے راہ چلتے ہرنی کا بچہ پکڑ لیا، ہرنی دوڑی دوڑی بادشاہ (بندر) کے دربار میں پہنچی اور فریاد کی کہ شیر نے میرا بچہ پکڑ لیا ہے، بادشاہ سلامت انصاف کیجئے اور اسے چھڑائیے۔ بندر نے کہا ،تم فکر ہی نہ کرو ابھی چھڑا دیتا ہوں، یوں بندر نے اپنی دوڑیں لگا دیں، شیر کے پاس جانے یا کوئی مناسب حکم نامہ جاری کرنے کی بجائے، بڑی تیزی سے ایک درخت سے دوسرے اور دوسرے سے تیسرے درخت پر چھلانگیں لگاتے ہوئے پورے جنگل کا چکر لگایا پھر تھک ہار کر ہرنی کے پاس پہنچا اور کہنے لگا، دیکھو میں نے تو بہت بھاگ دوڑ کی،اب بھی اگر شیر تمہارا بچہ نہ چھوڑے تو بھلا میں کیا کر سکتا ہوں، شیر یقیناً دہشت گرد ہے۔ پھر بادشاہ بندر نے پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ یہ کام دہشت گرد شیر کا کیا دھرا ہے، جو میری حکومت گرانا چاہتا ہے۔ میں نے بہت دوڑ لگائی جو آپ کے سامنے ہے۔ اب ہم نے بندروں کی کمیٹی بنا دی ہے اور مجرموں کو جلد ہی کیفرکردار تک پہنچائیں گے۔۔۔ اسی کہانی کو حالات حاضرہ پر فٹ کریں تو ہمارا حال بھی بندروں سے کم نہیں، جس سمت میں دوڑ لگانی چاہئے اس طرف ذرہ برابر بھی نہیں جاتے بلکہ بندر کی طرح فضول دوڑ لگاتے ہوئے ڈبل سواری پر پابندی اور انٹرنیٹ، موبائل نیٹ ورک بند کر دیتے ہیں۔۔ایک بار سیاستدانوں کی بھری بس کہیںجا رہی تھی۔ حادثہ ہوا اور بس الٹ گئی۔ ایک کسان پاس ہی تھا۔ وہ فوراً ٹریکٹر لے آیا اور گڑھا کھود کر سارے بندے بمع بس کے دفن کر دیئے۔۔اگلے دن پولیس تحقیقات کرتی آئی تو کسان نے انہیں ساری تفصیل بتائی۔ پولیس نے پوچھا کہ کیا تم نے جائزہ لیا تھا کہ وہ سارے مر چکے تھے یا ان میں سے کوئی زندہ بھی تھا۔۔کسان بولا کہ آدھی سے زیادہ بس والے کہہ رہے تھے کہ وہ زندہ ہیں۔ پر سر آپ تو جانتے ہی ہیں کہ سیاست دان کتنے جھوٹے ہوتے ہیں۔۔؟
اور اب چلتے چلتے آخری بات۔۔جدید دور کے لوگ اپنے موبائل فون میں قید ہیں۔۔جب ہی تو وہ اسے ’’سیل فون‘‘ کہتے ہیں۔خوش رہیں اور خوشیاں بانٹیں۔۔