فارن لینگویج

الیکٹ اور سلیکٹ

تحریر جاوید چودھری۔۔

حکومتی اتحاد اس وقت تک اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ ہے جب تک یہ لوگ اقتدار میں ہیں‘ یہ جس دن جیپ سے اتار دیے جائیں گے یہ اس دن پورے ملک میں ’’مجھے کیوں اتارا‘‘ کے نعرے لگائیں گے اور دوسری طرف عمران خان اور ان کے نام نہاد اتحادی اس وقت تک اینٹی اسٹیبلشمنٹ ہیں جب تک انھیں اقتدار سے اپنی مرضی کی بوٹی نہیں ملتی جس دن یہ مل گئی اس دن جنرل عاصم منیر جنرل باجوہ کی طرح جمہوریت پسند آرمی چیف ہوں گے اور ریاستی ایجنسیاں پاکستان کی سیاسی اور نظریاتی محافظ اور ملک میں ان کا عمران خان سے بڑا سپورٹر اور وکیل کوئی نہیں ہوگا‘ کھیل صرف اتنا ہے۔

اس ملک میں طاقتور ایک دوسرے کو الیکٹ اور سلیکٹ کر رہے ہیں‘ وزیراعظم اپنی مرضی کا آرمی چیف سلیکٹ کرتا ہے اور اس سلیکشن کے بدلے اس سے ذاتی وفاداری کی امید باندھ لیتا ہے اور جو آرمی چیف اپنی مدت میں اضافہ کرنا چاہتا ہے وہ اپنی مرضی کی حکومت لے آتا ہے اور اس لین دین میں ملک کا جنازہ نکل چکا ہے‘ اللہ کرے اس مرتبہ ایسا نہ ہو اور تاریخ کا دھارا اس سمت ہو جائے جس سمت اسے بہنا چاہیے‘ ہم صرف دعا ہی کر سکتے ہیں اور ہم دل و جان سے یہ کر رہے ہیں۔

سن 2000سے نئی صدی کا آغاز ہوا تھا‘ اس صدی کو ایشیا کی صدی کہا جاتا ہے‘ پچھلے 23 برسوں میں پورے ایشیا نے ترقی کی‘ جاپان سے لے کر ترکی تک ایشیائی ملکوں کی گروتھ‘ کوالٹی آف لائف اور معاشرتی اصولوں میں غیرمعمولی ترقی ہوئی‘ چین‘ روس اور بھارت میں 2000میں ایک بھی ارب پتی نہیں تھا لیکن آج صرف 23 برسوں میں چین میں 406‘ روس میں 120اور بھارت میں274ارب پتی ہیں‘ ترکی 2000 میں مرد بیمار تھا لیکن آج یہ دنیا کے ترقی یافتہ ملکوں میں شامل ہے۔

بھارت 2000میں پاکستان سے بجلی امپورٹ کر رہا تھا لیکن آج اس کے ریزروز 642بلین ڈالرز ہیں‘ آپ تھائی لینڈ‘ انڈونیشیا‘ ملائیشیا اور ویت نام کو بھی دیکھ لیں یہ بھی بڑی تیزی سے ترقی یافتہ ملکوں میں شامل ہو رہے ہیں‘ بنگلہ دیش کی ایکسپورٹس بھی 50 بلین ڈالرزتک پہنچ گئی ہیں‘ پورا سینٹرل ایشیا ڈویلپ ہو چکا ہے۔

آپ ازبکستان‘ قازقستان‘ تاجکستان‘ ترکمانستان اور آذربائیجان کو دیکھیں‘ آپ کی آنکھیں کھل جائیں گی‘ آپ اقتصادی پابندیوں کے باوجود ایران کی ترقی دیکھیں‘ آپ کی نیندیں اڑ جائیں گی‘ یہ پابندیوں کے باوجود اسرائیل سے لڑ رہا ہے اور امریکا اور یورپ نے ایران سے لڑائی کی صورت میں اسرائیل کی مدد سے انکار کر دیا ہے‘ عرب ملک بھی اب دنیا کی بڑی طاقتیں ہیں‘ یہ بڑی حد تک خود کو تیل کی کمائی سے الگ کر چکے ہیں‘ یو اے ای کی اکانومی میں تیل کا کنٹری بیوشن صرف 20 فیصد رہ گیا ہے‘ اس کی 80فیصد کمائی دوسرے سیکٹرز سے ہو تی ہے‘ قطر اور سعودی عرب بھی متبادل ذرایع پر شفٹ ہو رہے ہیں۔

سعودی عرب کے نئے شہر‘ سیاحت اور عمرہ عنقریب پورے ملک کا معاشی بوجھ اٹھا لے گا اور پیچھے رہ گیا چین تو یہ اب سپر پاور ہے‘ ہم اس کے بارے میں سوچ بھی نہیں سکتے‘ ریجن کی اس دوڑ میں صرف پاکستان اور افغانستان پیچھے رہ گئے ہیں‘ افغانستان بھی اندھیرے میں سمت ٹٹول رہا ہے اور پاکستان بھی ’’مینجمنٹ فیلیئر‘‘ کی بڑی کیس اسٹڈی بن چکا ہے‘ ہم آبادی میں پانچویں اور وسائل میں دسویں نمبر پر ہیں مگر صحت سے لے کر انصاف تک انسانی زندگی کے تمام تقاضوں میں ریڈ لائن سے نیچے ہیں۔

آئی ایم ایف نے چار دن قبل ہمیں معاشی لحاظ سے چھٹا خطرناک ملک ڈکلیئر کیا ‘ افغانستان‘ عراق‘ صومالیہ‘ شام اور لیبیا ہمارے ساتھ ہیں‘ یہ کیا ثابت کرتا ہے؟ یہ ثابت کرتا ہے ہم ایک ایسا جہاز بن چکے ہیں جو تیزی سے زمین پر گر رہا ہے لیکن پائلٹ آرام سے برگر انجوائے کر رہا ہے‘ اسے جہاز اور اپنی تباہی کا ذرا بھی ملال نہیںلیکن سوال یہ ہے ہم اس انجام تک کیسے پہنچے؟ صرف ایک جواب ہے ہم نے اپنی ذات کو ملک سے زیادہ اہمیت دی اور ہم اب اس کرب ناک انجام سے کیسے بچ سکتے ہیں۔

اس کا بھی صرف ایک ہی جواب ہے ہمیں ملک کو اپنی ذات سے زیادہ اہمیت دینا ہو گی اور اس کا صرف ایک ہی فارمولا ہے‘ ملک میں فوری طور پر ہر قسم کی ایکسٹینشن پر پابندی لگا دی جائے تاکہ یہ دروازہ ہمیشہ کے لیے بند ہو جائے ‘ہم اس کے بعد ایک سو فیصد جینوئن الیکشن کمیشن اور الیکشن سسٹم لے کر آئیں اور پھر ججوں کی تقرری کا نظام ٹھیک کر دیں اور انھیں ہر قسم کی آزادی دے دیں‘ ملک کی سمت ٹھیک ہو جائے گی ورنہ مولانا اور عمران خان مل کر ملک کی اینٹ سے اینٹ بجا دیں گے‘ یہ اکٹھے ہو چکے ہیں‘ یہ اب کچھ نہیں چھوڑیں گے۔(بشکریہ ایکسپریس)۔۔

Facebook Comments

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں