بلاگ: بول والا۔۔
جب سال نو کے شروع میں ہی بول چینل پر زوال آنا شروع ہوا اور تنخواہیں دو دو مہینے کی تاخیر سے ملنا شروع ہونے لگیں تو ہمیں خیال آیا کہ بول میں دال گلنے والی نہیں اس لیے کسی اور چینل کوچ کرلینا چاہئے۔ چنانچہ دھڑا دھڑ دوسرے میڈیائی اداروں میں اپنی سی ویز بھیجنا شروع کیں اور کئی چینلز سے انٹرویو کالز بھی موصول ہوئیں۔
جب چینلز میں انٹرویوز کا سلسلہ شروع ہوا تو بول کے بارے میں مارکیٹ میں پائی جانے والی کئی غلط فہمیوں کی بابت بھی معلوم ہوا۔ انٹرویو لینے والوں میں بڑے چینلز کے ڈائریکٹر نیوز سے لیکر چینل کے کسی شعبے کے سربراہ بھی شامل تھے۔ اب ہم کسی چینل جاتے ، وہاں پہلے تو ہمارا ایک تحریری امتحان لیا جاتا اور ہماری قابلیت کی جانچ پڑتال کی جاتی۔ اس کے بعد انٹرویو کا مرحلہ شروع ہوتا اور جب انٹرویو لینے والے کو یہ معلوم ہوتا کہ ہم بول سے آئے ہیں تو وہ ہمیں شعیب شیخ سمجھ لیتا اور جو اس کے دل میں آتا وہ سنانے شروع ہوجاتا۔ بجائے ہماری قابلیت کو زیر غور لیا جاتا صرف سی وی پر بول دیکھ کر ہی ہمارے متعلق منفی رائے قائم کرکے ہمیں ریجیکٹ کردیا جاتا۔ ایک چینل کے ڈائریکٹر نیوز نے تو ہمارے برسوں کے میڈیائی تجربے کو خاک میں ڈال کر فرمایا کہ میاں چونکہ تم بول سے آئے ہو تو پہلے ہمارے ادارے میں انٹرن شپ کرو۔ پھر جب تمہیں کام آجائے گا تو کسی پوسٹ کے لیے تمہارے متعلق غور کیا جائے گا۔ کئی انٹرویوز میں جب اس قسم کی باتیں سننے کو ملیں اور ہماری سی وی پر 2 ترچھی لائنیں لگا کر مسترد کیا گیا تو بڑی مایوسی ہوئی۔ دوستوں سے مشورہ کیا تو انہوں نے کہا کہ اپنی سی وی پر بول کا تجربہ ہٹا دو تو شائد کہیں بات بن جائے۔ یہ مشورہ ہمیں قابل عمل نہیں لگا اور ہم پہلے کی طرح نوکری کے لیے سعی کرنے کی کوششوں میں مصروف ہیں۔ اس دوران ایک بات کا شدت سے احساس ہوا کہ بول میں ہم نے ڈیڑھ سال کام کیا اور کام بھی اس قدر لگن اورمحنت سے کیا کہ نہ دن دیکھی نہ رات اور ہمیں دوسرے چینل والے یہ کہہ کر دھتکار رہے کہ یہ بول والا ہے اور اسے کچھ نہیں آتا۔
یہاں میں کچھ باتوں کا ذکر کرنا چاہوں گا کہ آخر کیوں بول سے متعلق ایسی رائے قائم کیوں ہوئی۔ اس میں سب سےبڑا کردار میں جناب علی عمران جونیئر صاحب کو سمجھتا ہوں۔ علی عمران جونیئر بہت گھاگ قسم کے صحافی ہیں۔ ابھی بھی خود کو بول والا ہی سمجھتے ہیں اور بول کے ایک ایک قدم کو باریک بینی سے دیکھتے ہیں۔ عمران جونیئر نامی ویب سائٹ پاکستان کے الیکٹرونک میڈیائی حلقوں میں سب سے زیادہ وزٹ کی جانے والی ویب سائٹ ہے۔ علی عمران صاحب نے بول لانچ ہوتے ہی سینہ بہ سینہ لکھنا شروع کیا جس میں دیگر چینلز سے زیادہ بول سے متعلق زیادہ مرچ مسالحہ شامل کیا گیا۔(موصوف کی اطلاع کیلئے عرض ہے سینہ بہ سینہ مئی دوہزارپندرہ میں ہونے والے بول بحران اور شعیب شیخ کی گرفتاری کے بعد شروع کیاگیا تھا، اس کا ثبوت میری ٹائم لائن پر موجود ہے۔۔علی عمران جونیئر) بول میں کام کرنے والے وہ لوگ جو سیدھا یونیورسٹی کی تعلیم مکمل ہونے کے بعد بول میں برسرروزگار ہوئے ان کے متعلق علی عمران صاحب نے “فریش بچوں” کی اصطلاح استعمال کی۔ (یہ اصطلاح میری ذاتی نہیں میڈیا انڈسٹری میں یہ عام اصطلاح ہے۔۔علی عمران جونیئر)اپنے کالموں میں انہوں نے ان فریش بچوں کو ہر طرح سے نکما ثابت کرنے کی کوشش کی۔ لیکن اس بات پر کبھی زور نہیں دیا کہ انہی فریش بچوں نے جن کو پہلے کسی میڈیائی ادارے کا تجربہ حاصل نہیں تھا بول کو اتنے عرصے تک چلایا۔ ان بچوں کو کوئی سینئر گائیڈ کرنے والا نہیں تھا۔(بالکل غلط۔۔علی عمران جونیئر) نیوز روم اور پروگرام پروڈکشن میں ان بچوں کی اکثریت تھی جن کے سروں پر وہ لوگ بیٹھے ہوئے تھے جنہوں نے اپنی زندگی میں ایک سطری خبر بھی نہیں بنائی تھی۔ جنہوں نے ” سی جی ، بیپر، وز سافٹ ویئر”” کے نام بھی بول میں آنے کے بعد ہی سنے تھے۔ ان لوگوں کی “سرپرستی” میں بول کے ان فریش بچوں نے بارہ بارہ گھنٹے وہ بھی بغیر کسی ہفتہ وار چھٹی کے دیوانہ وار کام کیا اور بعد میں کوئی چینل کا انٹرویو لینے والا ان سے یہ کہہ دے کہ تمہیں تو کچھ آتا نہیں تم پہلے انٹرن شپ کرو تو اس سے زیادہ مذاق کیا ہوگا بھلا؟
علی عمران جونیئر کا اس متعلق کردار قابل ستائش نہیں رہا۔ انہوں نے بول پر ہمیشہ منفی آنکھ رکھی۔(آپ نے اسے منفی لیا، علی عمران جونیئر) جہاں کوئی غلطی یعنی چینل کی زبان میں “بھنڈ” ہوا یا کوئی “آلو” آیا علی عمران صاحب نے اسے اپنی ویب سائٹ پر مزین کرنے میں دیر نہیں لگائی۔ میڈیا سے وابستہ لوگ جانتے ہیں کہ بھنڈ یا آلو فیلڈ میں روز مرہ کا معمول ہیں۔ دیگر چینلز میں کوئی بھنڈ ہوتو سب پہلے اس بھنڈ کو خوب انجوائے کرتے ہیں پھر اگلے دن کسی کو یاد بھی نہیں رہتا کہ کوئی بھنڈ ہوا تھا کہ نہیں، لیکن جب جب بول میں کوئی بھنڈ ہوا تو وہاں علی عمران کا کوئی نہ کوئی پپو حرکت میں آیا اور بھنڈ ہونے کے گھنٹہ اندر ہی وہ علی عمران ویب سائٹ پر آگئی۔
میری پاکستان کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی ویب سائٹ عمران جونیر ڈاٹ کام کے توسط سے تمام میڈیا مالکان، ڈآئریکٹر نیوز اور ایچ آر شعبے سے تعلق رکھنے والے افراد سے گزارش ہے کہ بول ورکرز کو نکما نہ سمجھیں۔ ان کے دن اور رات اس چینل کو اٹھانے میں صرف ہوئے ہیں۔(لیکن اٹھ کر نہیں دے رہا، وجہ؟؟) بہت سے لوگ جو آٹھ آٹھ سال کا میڈیا کا تجربہ رکھتے ہیں ان کو بھی بول کی وجہ سے ڈی گریڈ نہ کریں۔ ہم لوگوں پر بہت برا وقت درپیش ہے۔ کئی کئی مہینوں کی سیلری زیر التوا ہے (یہی باتیں تو لکھتا ہوں) اور ایسی افواہیں بھی گردش کررہی ہیں کہ الیکشن کے بعد بول کا بستر گول کردیا جائے گا۔ ان اندوہناک افواہوں کو مدنظر رکھتے ہوئے بول ملازمین دوسرے اداروں کی جانب دیکھ رہے ہیں تاکہ وہ اپنے بیوی بچوں کا پیٹ بھر سکیں۔ انہیں کم از کم بول کے تجربے پر نہ پرکھیئے۔ جو ان کی قابلیت ہے اس حساب سے ان کو اپنے ادارے میں موقع دیجئے اور میں امید کرتا ہوں کہ یہ بچے جو 12 گھنٹے بغیر کسی چھٹی کے 8 مہینوں تک کام کرتے رہے وہ لوگ آپ کو مایوس نہیں کریں گے۔
آخر میں علی عمران جونیئر صاحب سے گزارش ہے کہ آپ چونکہ ابھی بھی بول سے خود کو جوڑتے ہیں تو کم از کم اس ادارے کے ملازمین کے مستقبل سے متعلق میڈیا انڈسٹری میں اندیشے پیدا نہ کریں۔ ۔ (ایک بول والا)
(یہ بلاگ ایسے بول والا نے تحریر کیا ہے جو اس وقت بھی بول میں کام کررہا ہے۔۔بلاگ سو فیصد وہی ہے جو موصوف نے لکھا ہے، کچھ بھی ایڈیٹ نہیں کیا، موصوف نے کھل کر مجھے اور میری ویب سائیٹ کو تنقید کا نشانہ بنایا ہے، بلاگ میں جہاں جہاں مناسب سمجھا بریکٹ میں جواب بھی دیا ہے، لیکن کچھ باتیں ایسی تھیں جن کی تفصیل ضروری تھی۔۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ فریش بچوں کو نکما کبھی ثابت نہیں کیا، ہاں اگر کسی کو اردو چینل میں کام کرتے ہوئے اردو لکھنے نہ آئے اور وہ “رومن” میں اسکرپٹ لکھے، جسے پی سی آر یا ایم سی آر کی تکنیکس کا پتہ نہ ہو،جسے لائیو اور ایزلائیو کا فرق نہ پتہ ہو اور یہ لکھ دیا جائے تو اس میں کیا قباحت ہے؟؟دوہزار پندرہ میں بائیس سو سے زائد لوگ بول بحران کی وجہ سے بیروزگار ہوئے۔۔جن میں سے بیس فیصد بمشکل ری جوائن ہوئے باقی لوگ بھی تو کہیں نہ کہیں جاب کررہے ہیں، ان کے سی وی پر بھی بول تحریر تھا، ان پر بھی بول کا ٹھپہ تھا پھر دیگر ادارے والوں نے انہیں دوبارہ کیوں رکھ لیا؟؟ صاف ظاہر ہے، دوہزار پندرہ اور دوہزار سولہ کی ٹیم میں زمین آسمان کا فرق تھا، دوہزار سولہ میں جب بول بحال ہوا تو کراچی کی تمام نجی یونیورسٹیز سے ٹھیکے پر فریش بچے اور بچیوں کو رکھا گیا۔۔اور جس کے کیرئر کا آغاز ہی بول سے ہو اسے دس بار سوچیں گے دیگر چینلز پہ نوکریاں دینے سے پہلے۔۔ کوئی ماں کے پیٹ سے سیکھ کر نہیں آتا، ہم بھی خام مال تھے ، دھکے کھائے ، ڈانٹیں سنیں، ٹھوکریں کھائیں پھر کہیں جاکر کسی قابل ہوئے۔۔ لیکن جب فریش بچے ایسے چینل میں آئیں جہاں ہر چیز نمبر ون پہلے سے ہی ہو تو وہ فریش بچے بھی خود کو نمبر ون سمجھنے لگتے ہیں پھر ظاہر ہے نمبر ون صحافی جب کسی دوسرے، تیسرے،چوتھے نمبر کے چینل پرنوکری کے لئے جائے گا تو مشکلات کا شکار تو ہوگا۔۔باتیں بہت سی ہیں۔۔ الگ سے مضمون بن سکتا ہے۔۔ اس لئے جو سوالات آپ نے اٹھائے مختصر جواب تو بنتا تھا۔۔ زندگی رہی ۔۔پھر اسی ایشو پر بات کروںگا۔ تنقید اگر مہذب انداز میں ہو جیسا آپ نے کی ہے ،اچھا لگا۔۔ ہم کبھی تنقید سے نہیں گھبراتے۔۔علی عمران جونیئر)