تحریر: عطاالحق قاسمی
میرے ایک صحافی دوست نے جو صحافت کی سیج پر زندگی بسر کرنے کے باوجود تاہنوز صرف تنخواہ پر گزارا کرتا ہے، گزشتہ روز ایک ہائوسنگ اسکیم میں دس مرلے زمین کے لئے رقم کی پہلی قسط جمع کرائی ہے اور اب تک تصورِ جاناں میں آنکھیں بند کئے بیٹھا ہے۔ یہ تصورِ جاناں ذاتی گھر کا تصور ہے چنانچہ وہ اس وقت سے مکان کا نقشہ تیار کرنے میں مشغول ہے اور اس کی تعمیر کے ضمن میں دیگر امور پر غور و فکر کر رہا ہے۔ جہاں تک مکان کے نقشے کا تعلق ہے اس کے لئے وہ کاغذ پر کھنچی الٹی سیدھی لکیروں سے زیادہ بنے بنائے مکانات کے معائنے کو ترجیح دیتا ہے چنانچہ کل سے وہ اپنے اسکوٹر پر گلبرگ وغیرہ کے علاقے میں مارا مارا پھر رہا ہے۔ اس دوران حادثے کا شکار ہوتے ہوتے بھی بچا ہے کیونکہ بقول میر درد
دیکھتا کچھ ہوں دھیان میں کچھ ہے
وہ اسکوٹر چلاتے وقت دیکھ تو سامنے رہا ہوتا ہے مگر اس کا دھیان دائیں بائیں جانب واقع خوبصورت کوٹھیوں کے نقشے ذہن میں محفوظ کرنے میں مشغول رہتا ہے۔
آج صبح میرا یہ دوست ہانپتا کانپتا میرے پاس آیا اور کہا،’’مکان کا مسئلہ حل ہو گیا ہے! ‘‘
’’وہ کیسے؟‘‘ میں نے پوچھا۔
ایک ڈیزائن پسند کر لیا ہے، بہت کمال کی کوٹھی ہے، اس کے آگے چھ کنال کا لان ہے۔
’’وہ تو ٹھیک ہے‘‘ میں نے کہا’’مگر دس مرلے زمین میں چھ کنال کے لان کی گنجائش نکالنا قدرے مشکل ہوگا۔‘‘
’’یہ تو تم ٹھیک کہہ رہے ہو‘‘ اس نے روہانسا ہو کر کہا ’’ پھر کیا کیا جائے؟ ‘‘
’’فی الحال تم آدم جی کی لان پر گزارا کرو، بعد میں دیکھا جائے گا‘‘ دس مرلے زمین میں چھ کنال لان والے منصوبے میں کمی بیشی کرتے ہوئے اس نے بالآخر دس فٹ لان پر رضامندی کا اظہار کیا اور کہا ’’میرا ارادہ ڈبل اسٹوری تعمیر کرنے کا ہے، نیچے دو بیڈ روم، ایک ڈرائنگ، گیراج اور گیراج کے اوپر ایک خوبصورت سا کمرہ جس میں باہر کی طرف دبیز شیشوں والی کھڑکیاں ہوں۔ ‘‘
’’گیراج بنا کر کیا کرو گے، اکیلا اسکوٹر وہاں پریشان ہو گا۔ ‘‘
’’نہیں یار گیراج ضرور ہونا چاہئے، اس کا دروازہ بند رکھا کروں گا۔ باہر سے لوگ یہی سمجھیں گے کہ کار اندر کھڑی ہے۔ ‘‘
’’تم اگر گیراج کا دروازہ کھلا رکھو تو بھی کوئی حرج نہیں، کیونکہ لوگ سمجھیں گے کہ کار کہیں باہر گئی ہوئی ہے۔‘‘
’’تم ٹھیک کہتے ہو، ہاں یاد آیا میں باتھ رومز کے معاملے میں بہت حساس ہوں، میں نے سوچا ہے کہ اپنی کوٹھی میں بہت وسیع و عریض باتھ رومز بنائوں گا اور اس میں تمام جدید ترین آسائشیں ہوں گی یہ میری بہت شدید خواہش ہے۔ ‘‘
’’یہ آئیڈیا بھی برا نہیں‘‘ میں نے کہا ’’باتھ روم واقعی ایسا ہونا چاہئے کہ اگر کبھی مہمان زیادہ آ جائیں تو ان میں سے کچھ کو باتھ روم میں ٹھہرایا جا سکے۔‘‘
وسیع و عریض اور جدید ترین آسائشوں سے آراستہ باتھ روم کے سلسلہ میں جب میں نے متذکرہ نوع کی ’’آراء‘‘ سے اپنے دوست کو اس پر رضامند کر لیا کہ فی الحال اسے باتھ روم اور ڈرائنگ روم میں ایک ہلکا سا امتیاز قائم رہنے دینا چاہئے نیز اس امر کا قائل بھی کر لیا کہ عالی شان کوٹھی کے بجائے رہنے کے لئے ایک اوسط درجے کا گھر کافی ہے تو اس نے کہا ’’چلو میں تمہاری بات مان لیتا ہوں، مگر مکان کی تعمیر کے سلسلہ میں ایک چھوٹی سی رکاوٹ ہے۔ کچھ مشورہ اس کے بارے میں بھی دو؟
’’کیا رکاوٹ ہے‘‘ میں نے پوچھا۔
’’پیسہ نہیں ہے‘‘
’’تم نے اس سلسلے میں تخمینہ لگوایا ہے؟‘‘
’’ہاں اوسط درجے کا مکان بھی تعمیر کیا جائے تو کم سے کم پچاس لاکھ روپے لگتے ہیں۔‘‘
’’پھر تم نے کیا سوچ ہے۔ ‘‘
’’تیس لاکھ روپے ہائوس فنانس کارپوریشن والوں سے قرض لے لوں گا اور باقی قریباً تیس ہزار روپے کی مالیت کے زیورات ہیں،اس کے علاوہ اپنا اسکوٹر بیچ دوں گا۔ ‘‘
’’میں نے اسکوٹر کی ہیئت کذائی پر نظر ڈالی تو کہا دس ہزار روپے، باقی؟ ‘‘
س کے چہرے پر سوچ کی لکیریں نمودار ہوئیں اور پھر اس نے چٹکی بجا کر کہا ’’کچھ رقم تم سے قرض لوں گا‘‘
’’ٹھیک ہے‘‘ میں نے جواب دیا ’’ایک ہزار روپیہ یہ ہو گیا، باقی؟‘‘
’’تم ٹوٹل لگائو‘‘ اس نے بیزار ہو کر کہا ’’پہلے دیکھیں یہ رقم کتنی بنتی ہے؟‘‘
میں نے ٹوٹل لگایا ۔
’’مزید کتنی رقم درکار ہے؟‘‘
’’قریباً اتنی ہی رقم مزید درکار ہے، جتنی ہم نے فرض کی ہے کہ جمع ہو جائے گی! ‘‘
’’ٹھیک ہے، انتظام ہو جائے گا، اس نے اچانک پُرامید ہو کر کہا۔
’’وہ کیسے‘‘ میں نے پوچھا۔
’’میں لائف انشورنس کرا لوں گا‘‘
’’مگر اس سے مکان کیسے بنے گا؟‘‘
’’بن جائے گا‘‘ اس نے اپنی جگہ سے اٹھتے ہوئے کہا ’’انشورنس کرانے کے بعد میں خودکشی کر لوں گا۔ اگر میں نہیں تو میرے بچے اپنے مکان میں ضرور رہیں گے۔‘‘(بشکریہ جنگ)