تحریر: فیصل خان۔۔
بالی ووڈ موویز میں دیکھتا تھا کہ جب بھی ولن کی ہیرو پٹائی کرتا تھا اور ولن کو اس بات کا یقین ہوجاتا کہ اب بچنا مشکل ہے تو وہ فورا ہیرو کے پیروں میں پڑجاتا اور معافی مانگنے لگتا ہیرو جیسے ہی اسکو معافی دیتا موقع لگتے ہی ولن پلٹ کر حملہ کردیتا ۔۔۔ایسے ہی کچھ ولن ہماری زندگیوں میں بھی ہیں جو دراصل ولن نہیں منافق ہیں اور یہ منافق اعلی عہدوں پر فرعون بن کر بیٹھیں ہیں ۔۔ آپ ان کا حلیہ دیکھیں تو لگے گا کوئی اللہ کے ولی ہیں ۔۔۔ باتیں سنیں تو لگے گا کوئی شیخ الحدیث بات کررہا ہے ۔۔۔ بات بات پر قرآن کی آیتیں اور اس کا ترجمہ ایسا سنائیں گے کہ انسان کہے گا یہ تو فرشتے ہیں لیکن یہ فرشتے نہیں انسان کے روپ میں شیطان ہیں جو اپنی مرضی کا دین اپنی مرضی سے آیات کا مفہوم نکال کر ان کو اپنے اوپر فٹ کرکے سمجھتے ہیں کہ وہ حق پر ہیں۔۔۔ بالکل اسی طرح جیسے ارطغرل ڈرامے کا کردار کرتوغلو یا پھر بے بولت خود کو یہ کہہ کر مطمئن کرتے ہیں کہ وہ حق پر ہیں۔۔۔۔
نوکری جانے کا خوف اور ساری آسائشیں چھن جانے کا خوف ہو تو یہ اعلی منصب پر بیٹھا فرعون بالکل بالی ووڈ کے ولن کی طرح پیروں میں گرا ہوتا ہے اور کہتا ہے مجھے معاف کردو میں نے تمہارے ساتھ بہت زیادتیں کیں جو نہیں کرنی چاہیے تھیں ۔۔۔ لیکن کیا کریں یہ انسان کی شکل میں دراصل وہ بچھو ہیں جس کی فطرت ہی ڈنک مارنا ہے۔۔۔ میرے والد مرحوم فرمایا کرتے تھے چور چوری سے جائے ہیرا پھیری سے نہ جائے۔۔۔بالکل اسی طرح یہ فرعون بھی دل میں بغض رکھے ایک جامعہ کے استاد کے پیچھے لگا ہوا ہے بیوقوف انسان سمجھ رہا ہے اس کے اس مکروہ فعل کا کوئی اور بھی حصہ بن جائے گا جو اس کی بھول تھی ۔۔۔ ایسا نہیں کہ اس کو سمجھایا نہیں دلائل کے ساتھ بات بھی کی اخلاقیات بھی یاد دلائیں اور جرنلزم کے بنیادی نکتے بھی سمجھانے کی کوشش کی لیکن کیا کریں وہ اس بیچارے کی سمجھ میں نہیں آئے کیونکہ اس کا صحافت سے کیا لینا دینا ۔۔۔ اس کو بتلایا سب کے سامنے جتلایا ہاتھ جوڑے لوگوں کی عزت کو اچھالنے سے پرییز کرو کیونکہ کہ تم تو بظاہر دین کے قریب نظر آتے ہو لیکن پھر احساس ہوا کہ بغض اور طاقت کے نشے میں یہ شخص اندھا ہوچکا ہے اور اس سب کی وجہ موصوف کو جامعہ میں لیکچر کی اجازت نہ ملنا تھی کیونکہ وہ خود کو موٹیویشنل اسپیکر بھی گردانتا ہے۔ ۔۔ فرعون کے ساتھ دم چھلہ بنے موصوف سے یہ امید تو تھی کہ شاید اس نادان دوست کو راہ راست پر لائیں لیکن پھر انکشاف ہوا کہ موصوف اصل میں چپ گھنے ہیں جن کا کام پیچھے سے چھرا گھونپنا ہے شاید انہیں لوگوں کا سامنا کرتے ڈر لگتا ہے۔۔۔
بغض اور طاقت کے نشہ میں یہ شخص اتنا اندھا ہے کہ جانتے ہوئے بھی کہ لوگوں کے ساتھ زیادتی اور ظلم کی وجہ سے لوگ اس کو فرعون سے تشبیہ دیتے ہیں وہ اس کو فخر سے بیان کرتا ہے حالانکہ اس وقت کے فرعون کا عبرتناک انجام دیکھنے کے لئے اللہ نے ہم سب کراچی والوں کو دکھلایا کہ کس طرح لندن میں بیٹھے فرعون کو اس پاک زات نے ڈھیل دی اور جب وقت آیا تو کیا عبرت ناک انجام ہوا۔۔۔ لیکن اس فرعون کو شاید اللہ کی طرف سے اور موقع دیا ہے کہ شاید یہ سدھر جائے۔۔۔
فرعون کی خاص بات یہ ہے کہ موصوف کی خواہش اور دکھلاوا تو یہ ہے کہ وہ ڈیبیٹ کو پسند کرتے ہیں حال یہ ہے کہ بالکل جائز سوال بھی کرلو تو تن بدن میں آگ لگ جاتی ہے۔۔۔ موصوف کو دراصل زرخرید غلام درکار ہیں جو اس کی آواز پر کہیں کہ کیا حکم ہے میرا آقا۔۔۔ اور پھر جو وہ کہے صحیح یا غلط سامنے والی زندگی کی ایسی تیسی کردو ۔۔ کیونکہ صاحب کا حکم ہے۔۔۔ لیکن کچھ لوگ اللہ نے ابھی بھی اس دنیا میں ایسے رکھے ہیں جو اللہ کے نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی اس بات پر کامل یقین رکھتے ہیں کہ اے لوگوں حق گوئی سے نہ ڈرنا یاد رکھو نہ تمہیں کوئی موت کے قریب کرسکتا ہے اور نہ رزق سے دور کرسکتا ہے۔۔۔ اسی لئے وہ اس فرعون کی ہر بات یا حکم کو چیلنج کرتے ہیں جب انہیں کہا جاتا ہے کہ فلاں منسٹر کی بینڈ بجادو ۔۔۔ اس کے خلاف خبریں لاو۔۔۔ تو جواب ملتا ہے میں اس صحافت میں لائنیں چلانے نہیں آیا ۔۔۔میں کسی کو ٹارگٹ کرکے خبریں نہیں چلاتا نہ میری ایسی تربیت کہ زاتی لڑائی کو ادارے کی لڑائی بناکر پیش کروں کیونکہ ادارے کی کوئی ایسی پالیسی نہیں یہ بات بہت اچھے سے معلوم ہے ۔۔۔ یہ پالیسی تو اس فرعون اور اس کے حواریوں کی ہے۔۔۔ ۔۔۔اگر یہ کوئی عام لوگ ہوتے جن کا حلیہ عام لوگوں کی طرح ہوتا تو کوئی بات نہیں تھی لیکن جب ان کے حلیے دیکھو تو دل میں بس یہ ہی خیال آتا ہے کاش یہ دوسرے لوگوں کے لئے مثال ہوتے کہ اگر انسان دین کو پڑھے تو اس کے اوصاف ایسے ہوتے ہیں کہ دوسرا ان کو دیکھ کر دین پر چلنے لگے ۔۔۔۔ او عقل کے اندھوں ایک بات یاد رکھو ایک ہوتا ہے عبادات کا دین اور ایک ہوتا ہے معاملات کا دین عبادات آپ کا اور رب کا معاملہ کا ہے معاملات اصل ہے جو نجات اور پکڑ دونوں کا باعث بنے گا۔۔۔ اب بھی اگر تمہاری سمجھ نہ آئے تو بس انتظار کرو قیامت کا جو آنکھ بند ہوتے ہی شروع ہوجانی ہے۔۔۔ ویسے بھی تم ہی بتارہے تھے کہ اگر انسان گناہ کو گو ٹٹی سمجھ کر کھارہا ہے تو ٹھیک ہے لیکن اگر چاکلیٹ سمجھ کر کھارہے ہو تو پھر خطرہ ہے تو دیکھ لو تم بھی گو کو ٹٹی سمجھ کر کھا رہے یا پھر چاکلیٹ کے مزے لے رہے ہو ۔۔۔ ویسے بھی بڑے بوڑھے کہا کرتے تھے کہ بیٹا باپ کا عکس ہوتا ہے شاید درست ہی کہتے ہیں۔۔۔(فیصل خان)۔۔
(سما کے رپورٹر فیصل خان کی یہ تحریر ان کی ٹائم لائن سے لی ہے ،جس میں انہوں نے اشاروں میں اشاروں میں بہت کچھ کہہ ڈالا۔۔ فیصل خان کی تحریر سے صاف ظاہر ہورہا ہے کہ وہ کس ماحول میں کام کرتے رہے ہیں۔۔ اس تحریر کے مندرجات سے عمران جونیئر ڈاٹ کام اور اس کی پالیسی کا متفق ہونا ضروری نہیں۔۔ علی عمران جونیئر)۔۔