تحریر: راؤ محمد جمیل
کراچی کا ضلع ملیر مبینہ صحافیوں کا گڑھ بن گیا ڈپٹی کمشنر آفس ایس ایس پی آفس اور ڈی ایم سی ملیر میں درجنوں مبینہ صحافیوں نے ڈیرے ڈال دیئے۔ ضلع ملیر کے تمام ڈی ایس پی آفس اور تھانوں پر مبینہ صحافیوں کی یلغار۔ ضلع ملیر میں سرکاری اراضی پر قبضے جرائم کے اڈوں کو چلوانے اور دیگر غیر قانونی سرگرمیوں میں ملوث ہیں۔ درجنوں مبینہ صحافی مختلف سرکاری اداروں کے ملازمین بھی بتائے جاتے ہیں۔ ایک غیر فعال نیوز ایجنسی نے بھی متعدد دکانداروں اور فیکٹریوں میں کام کرنیوالے ان پڑھ اور جاہل افراد کو ناصرف پریس کارڈز جاری کر رکھے ہیں بلکہ انہیں سندھ گورنمنٹ کے ایگریڈیشن کارڈز بھی بنوادیئے۔ مبینہ جاہل صحافیوں نے پروفیشنل صحافیوں کی عزت اور صحافت کا وقار داؤ پر لگادیا۔ تفصیلات کے مطابق ضلع ملیر میں بڑے پیمانے پر مبینہ جعلی صحافیوں کی جانب سے جرائم پیشہ افراد کی سرپرستی اور غیر قانونی دھندوں میں ملوث ہونے کا انکشاف ہوا ہے۔ مصدقہ اطلاعات کے مطابق ضلع ملیر میں سینکڑوں کی تعداد میں ایسے افراد پائے جاتے ہیں جن کا صحافت سے کوئی تعلق نہیں مذکورہ افراد مختلف دکانوں، فیکٹریوں اور شورومز سمیت دیگر اداروں میں ملازمت کرتے ہیں تا ہم انھوں نے مختلف روزناموں ہفت روز ہ اور ویب چینل کے پریس کارڈ بنوا رکھے ہیں جن کی آڑ میں ضلع بھر میں لوٹ مارکا سلسلہ جاری ہے۔ اطلاعات کے مطابق بعض مبینہ صحافی پاکستان اسٹیل ملز، ایجوکیشن، ہیلتھ، ضلع کونسل اور اسکولوں سمیت دیگر سرکاری اداروں میں باقاعدہ ملازم ہیں۔ ان میں چپراسی سے لے کر اسکول ٹیچر اور بعض افسران بھی شامل ہیں۔ پریس کارڈ کے باعث وہ مذکورہ سرکاری اداروں میں اپنی ذمہ داریاں ادا کرنے کی بجائے دن بھر ضلع بھر کے سرکاری اور غیر سرکاری اداروں میں سرگرداں رہتے ہیں جبکہ ڈی سی آفس، ایس ایس پی آفس ملیر کے علاوہ ڈی ایس پیز اور تھانوں میں دورے کرتے رہتے ہیں۔ بعض مبینہ صحافی صبح ڈی سی آفس کھلتے ہی ڈی سی آفس کے ملازمین کی طرح دن بھر آفس میں موجود رہتے ہیں اور سرکاری افسران کو حراساں کرکے مختلف غیر قانونی کام کروانے کے ساتھ ساتھ بعض افسران کے ایجنٹ کے طور پر بھی کام کرتے ہیں۔ یہ اطلاعات بھی موصول ہوئی ہیں کہ بعض مبینہ صحافیوں نے کئی چھاپہ مار ٹیمیں تشکیل دے رکھی ہیں جن میں بعض خواتین بھی شامل ہیں جو دن بھر سرکاری افسران اور غیر قانونی سرگرمیوں میں ملوث افراد کے علاوہ ٹھیلے والوں، پتھارے والوں اور کیبن والوں تک کو حراساں کرکے رقم بٹوررہے ہیں۔ مذکورہ مبینہ صحافیوں نے جہاں ایک جانب بھتہ خوری اور اندھیر نگری مچا رکھی ہے تو دوسری جانب پروفیشنل صحافیوں کی عزت اور وقار بھی داؤ پر لگا دیا ہے۔ ضلع ملیر کے سرکاری اداروں کے افسران کاروباری افراد اور تمام شہری یہ سوال کر رہے ہیں کہ ایک جعلی اور اصلی صحافی کی پہچان کیسے کی جائے پروفیشنل صحافیوں کی بڑی تعداد معمولی موٹر سائیکلوں پر جبکہ مبینہ صحافیوں کی بڑی تعداد اجلے کپڑوں اور قیمتی گاڑی میں سوار ہوتی ہے۔ یہ اطلاعات بھی موصول ہوئی ہیں کہ ملیر ندی کے علاوہ نیشنل ہائی وے پر سرکاری اراضی پر قبضے غیر قانونی گوٹھوں کی آڑ میں فروخت اور غیر قانونی تعمیرات میں بھی بعض جعلی صحافی ملوث ہیں۔ بعض جعلی صحافیوں کے ضلع ملیر کے سرکاری اداروں کے افسران اور بعض پولیس افسران سے خصوصی مراسم ہیں اور آئے دن شباب و کباب کی محفلیں بھی منعقد ہوتی رہتی ہیں چند ایسے جاہل صحافی جن کے پاس پہننے کیلئے کپڑے اور چپل تک نہیں تھی آج کروڑ پتی بن چکے ہیں اور متعدد نے اپنے فارم ہاؤس بھی بنا رکھے ہیں۔ ضلع ملیر کے متعدد پولیس افسران سرکاری اداروں کے افسران اور تمام شہریوں نے بھی چیف جسٹس آف پاکستان، وزیر اعظم پاکستان گورنر سندھ اور وزیر اعلیٰ سندھ سے اپیل کی ہے کہ ضلع ملیر میں جعلی صحافیوں کا محاسبہ کیا جائے اور مختلف جرائم اور اربوں روپے کی سرکاری اراضی پر قبضے، فروخت اور غیر قانونی تعمیرات میں ملوث ایسے جعلی صحافیوں کے خلاف قانونی کاروائی عمل میں لائی جائے۔ یہ اطلاعات بھی ملی ہیں کہ بعض افراد کو 500روپے سے 5ہزار روپے میں پریس کارڈ جاری ہو رہے ہیں جبکہ ایک غیر فعال نیوز ایجنسی کے مالک سینئر صحافی نے ایک لیٹر شراب کے عوض بھی پریس کارڈ ایک فیکٹری ملازم کو جاری کیا۔