خصوصی رپورٹ۔۔
ملک کی تمام میڈیا تنظیموں اے پی این ایس، سی پی این ای، پی بی اے اور پی ایف یو جے (برناگروپ ،دستوری گروپ اور ورکرز)کے مشترکہ اجلاس میں وفاقی کابینہ کے خصوصی میڈیا ٹریبونل قائم کرنے کے فیصلہ کو متفقہ طور پر مسترد کردیا ہے۔ روزنامہ جنگ کے مطابق میڈیا تنظیموں کا ایک مشترکہ اجلاس اسلام آباد میں منعقد ہوا جس میں تمام میڈیا تنظیموں کے سربراہوں نے وفاقی حکومت کی طرف سے میڈیا کی آزادی کو سلب کرنے کی کوششوں کو میڈیا ٹریبونل کے ذریعے ایک باضابطہ شکل دینے پر شدید تشویش کا اظہار کیا ہے جو حکومت کے مقتدر حلقوں کی طرف سے میڈیا پر عائد پابندیوں کاتسلسل ہے مشترکہ اجلاس میں وفاقی حکومت سے مطالبہ کیا گیا کہ اس میڈیا دشمن فیصلہ کو فوری طور پر واپس لیا جائے اجلاس نے فیصلہ کیا کہ میڈیا ٹریبونل کے قیام کی مزاحمت اور مخالفت کرنے کیلئے تمام ضروری اقدامات کیئے جائیں گے ۔ تمام تنظیموں کے سربراہان پر مشتمل ایک اسٹینڈنگ کمیٹی تشکیل دی گئی جواس ضمن میں مزید اقدامات طے کرے گی ۔اجلاس میں میڈیا تنظیموں کے سینئر نمائندوں بشمول حمید ہارون( صدر اے پی این ایس)، عارف نظامی (صدر سی پی این ای)، شکیل مسعود(چیئرمین پی بی اے)،مبارک زیب پی ایف یو جے (برنا)،نواز رضا پی ایف یو جے (دستوری)، پرویز شوکت پی ایف یو جے (ورکرز)، ممتاز طاہر (نائب صدر اے پی این ایس)، سرمد علی (سیکرٹری جنرل اے پی این ایس)،ڈاکٹر جبار خٹک (سیکرٹری جنرل سی پی این ای)، ایس ایم منیر جیلانی (جوائنٹ سیکرٹری اے پی این ایس)، شہاب زبیری (فنانس سیکرٹری اے پی این ایس)، مجیب الرحمن شامی چیف ایڈیٹر (روزنامہ پاکستان )، سید ظفر عباس چیف ایڈیٹر (روزنامہ ڈان )، جمیل اطہر چیف ایڈیٹر (روزنامہ تجارت )، آصف زبیری پبلشر (روزنامہ بزنس ریکارڈر)، راجہ ریاض پی ایف یو جے ورکر، تحسین راٹھور پی ایف یو جے ورکر ، خوشنود علی خان چیف ایڈیٹر (روزنامہ صحافت )، سردار خان نیازی (نائب صدر سی پی این ای) اورمحسن بلال ایڈیٹر (روزنامہ اوصاف) نے شرکت کی ۔
دریں اثنا پی ایف یوجے کے ایک اور دھڑے کے سیکرٹری جنرل رانا عظیم نے گزشتہ روز جاری اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ۔۔اسلام آباد میں اخباری ٹی وی چینلز کے مالکان کااجلاس جو اے پی این ایس، سی پی این ای، پی بی اے کے نام سے ہو رہا تھا اس اجلاس میں ہمیں بلوایا گیا تو ہماری شرط یہ تھی کہ ہم اس صورت میں آپ لوگوں کے ساتھ بیٹھیں گے کہ اگر آپ کارکنوں کی بحالی کی ہم سے بات کریں گے۔۔ جس پر مالکان تیار نہیں تھے تو ہم نے اس اجلاس کا بائیکاٹ کردیا۔۔ مگر افسوس کے ساتھ کچھ واٹس ایپ گروپوں میں بننے والی تنظیموں جو ہمیشہ مالکان کے مفاد کیلئے بنتی ہیں ان کے نمائندے وہاں چلے گئے اور انہوں نے صرف وہاں مالکان کی ہاں میں ہاں ملائی اپنی نوکریاں پکی کیں اور وہاں پر صحافی برادری کو بیچ آئے آج مختلف اخبارات میں لگی وہ پریس ریلیز بھی اس بات کی گواہ ہے کہ اس میں کسی جگہ بھی صحافیوں کی برطرفیوں صحافیوں کے معاشی قتل پر ایک لفظ نہیں ہے۔۔رانا عظیم کا کہنا ہے کہ اب فیصلہ آپ نے کرنا ہے کہ مالکان کے ساتھ بیٹھ کر واٹس ایپ گروپوں پر تنظیمیں بنا کر آپ کا سودا کرنے والے کے ساتھ آپ نے کیا کرنا ہے ۔ ہم اس کمیٹی میں اسی صورت میں جائیں گے اگر کارکنوں کی بحالی کی بات ہو گی۔۔مالکان کے مفاد کی بات میں ہم لوگ حصہ دار نہیں۔۔(خصوصی رپورٹ)