تحریر: خرم شہزاد
پاکستان میں اخبارات کو ہمیشہ ایک ممتاز مقام حاصل رہا ہے۔ بزرگ صحافی اب بھی اس وقت کو یاد کرتے ہیں جب اچھے خاصے معروف سیاستدان اور شخصیات ایک چھوٹی سی خبر کے لیے صحافیوں سے دوستیاں گانٹھا کرتے تھے۔ وہ بھی وقت تھا جب ایک کالمی چھوٹی سی خبر پر اقتدار کے ایوانوں میں زلزلہ آ جایا کرتا تھا۔ صحافی وقت کے حکمرانوں اور آمروں کے سامنے ڈٹ جاتے تھے اور وہ اپنی پوری کوشش کے باوجود نہ تو صحافیوں کو توڑ پاتے تھے نہ جھکا پاتے تھے۔یہ بے غرض لوگ ہوتے تھے ، شائد اسی لیے اتنے طاقتورتھے لیکن پھر وقت بدلا اور صحافت مفادات کی نظر ہونے لگی۔ اخبارات کے ڈیکلریشن فروخت ہونے لگے اور نئے اخبارات بھی اشتہارات کے ساتھ ساتھ مفادات کے تحفظ کے لیے استعمال ہونے لگے۔ مرحوم نظامی صاحب ہر نئے اخبار کے اجرا پر سخت مایوسی کا اظہار کرتے اور اسے صحافت کے آنے والے خراب وقت سے تعبیر کرتے تو یار دوست انہیں کہتے کہ نظامی صاحب کسی دوسرے کو بھی برداشت کر لیں لیکن وقت نے ثابت کیا کہ بات کسی کو برداشت کرنے کی نہیں بلکہ گرتے ہوئے معیار کی تھی۔ وقت گزرا ، زمانہ بدلا اور پھر کیبل چینلز کا آغاز ہوا جنہوں نے ہر تیسرے شخص کے ہاتھ میں مائیک تھما دیااور ہر دوسرے شخص کی جیب میں پریس کارڈ ڈال دیا۔ لوگ انہیں دیکھنے لگے تو اہمیت بھی ملی اور مشہوری بھی لیکن یہ سب ان سے بھی ہضم نہ ہو سکا۔ کم ناظرین کی وجہ سے چونکہ مقابلہ بہت سخت تھا اس لیے آپسی رقابت اور دوڑ میں سب جائز ہونے لگا۔ لوگوں کو متوجہ کرنے کے لیے کسی نے بریکنگ نیوز کا سہارا لیا تو کسی نے ناچ گانے کا، کوئی بے سروپا رپورٹنگ کرنے لگا اور کسی نے ڈراموں میں اپنی تہذیب و ثقافت اور اقدار کا ہی مذاق بنا دیا ۔ ایسا نہیں تھا کہ یہ لوگ کم عقل یا بے وقوف تھے ہاں لیکن مجبور ضرور تھے کہ جب میڈیا کی منڈی میں آ ہی گئے ہیں تو کسی نہ کسی بہانے سے اپنا ٹھیلہ چلانا تو ہے۔ تہواروں پر لگنے والے میلے ٹھیلے میڈیا کے کاروبار کو سمجھنے کی سب سے اچھی مثال ہیں۔ کوئی بھی شخص جیب میں ایک مخصوص رقم لے کر جب کسی میلے میں آتا ہے تو اس کے سامنے سینکڑوں نہیں تو بلامبالغہ درجنوں اسٹال لگے ہوتے ہیں۔ اب اس شخص کی جیب سے وہی رقم نکلوانے میں کامیاب ہو گا جو سب سے الگ پرفارم کرئے گا اور ایسا ہی کچھ میڈیا کے ساتھ بھی ہوا۔ لوگوں کی توجہ حاصل کرنے کے لیے روز نت نئے تماشے کئے جانے لگے لیکن یہ سب کب تک اور کس حد تک جا سکتا تھا ،یہ بات کسی نے نہ سوچی اور پھر اس غبارے سے بھی ہوا نکلنے لگی۔ تین بجے شروع ہونے والے میچ کے ٹاس کی بریکنگ نیوز ڈھائی بجے دیکھنے میں دلچسپی کم ہونے لگی کیونکہ اب سوشل میڈیا کا دور شروع ہونے لگ گیا تھا۔
دنیا میں ایک دو طاقتور مظاہروں کے پیچھے سوشل میڈیا نے اپنا آپ ثابت کیا کر دیا ، ان کی تو ہوا ہی بن گئی۔ سب کہہ دینے کی آزادی بھی اگر ساتھ میسر ہو تو بھلا کون کم بخت پھر اپنے ہوش و حواس میں رہتا ہے اور یہی کچھ اس وقت سوشل میڈیا والوں کے ساتھ ہے۔ دوسرے میڈیا ز سے کسی بھی خبر یا مضمون لینے کے لیے لوگوںکو چند مخصوص افراد پر انحصار کرنا پڑتا تھا لیکن سوشل میڈیا میں ہر شخص خود ہی منصف بھی ہے اور وکیل بھی، ملزم بھی اور رائے عامہ بھی ۔ آپ کی اپنی مرضی ہے کہ آپ کس موڈ میں بیٹھے ہیں اور کیا کردار ادا کرنا چاہتے ہیں۔ اگر پوری طرح موڈ میں ہیں تو ساہیوال واقعے پر ایک گھنٹے میں بیس بائیس پوسٹیں کرتے ہوئے حکومت سے لے کر اداروں تک سب کو کھری کھری سنا سکتے ہیں، ملک میں پھیلی ہوئی لاقانونیت ، انصاف کی عدم فراہمی اور لوگوں کی حالت زار پر جسے چاہیں الزام بھی دے سکتے ہیں اور کٹہرے میں لانے کی فرمائش بھی کر سکتے ہیں۔ موڈ اگر آرام کرنے کا ہو تو لاہور میں قتل ہونے والی ملازمہ کے لیے یہ سوچ کر کہ ’چلووہ تو مر گئی اب ہمارے کہنے سے کیا ہو جائے گا ‘ ، آپ کوئی فلم دیکھنے کے لیے لگا لیں تو کوئی آپ کا کیا بگاڑ سکتا ہے۔ آپ کی دس منٹ میں کی جانے والی چار پوسٹوں کے بعد حکومت کی طرف سے اٹھائے گئے کسی بھی قدم کو آپ اپنی پوسٹوں کی طاقت سمجھتے ہوئے چھاتی چند انچ اور چوڑی کر لیں ، تب بھی آپ سچے ہی شمار کئے جائیں گے۔
اس صورت حال میں یہ سوال بجا طور پر اٹھا یا جا سکتا ہے کہ کیا سوشل میڈیائی مجاہدین ابھی تک اپنے آپ کو التحریر چوک میں بیٹھا ہوا تصور کرتے ہیں ؟ کیا ان کے خیال میں دنیا صرف ان کی انگلیوں کے نیچے بچھی چند انچ کی سکرین جتنی ہے اور اس سے باہر کچھ بھی درحقیقت موجود ہی نہیں ؟ کیا اچھی انٹرنیٹ اور ٹائپنگ سپیڈ کے ساتھ ساتھ مختلف ناموں کی آئی ڈیز کے پیچھے چھپ جانے کی سہولت کی وجہ سے آپ کو جسے جو مرضی کہنے کی آزادی دی جا سکتی ہے؟ اگر آپ کی پوسٹیں چندسو، ہزار یا لاکھ افراد پڑھتے ہیں تو کیا آپ ہر طرح کے اخلاقی ضوابط سے بالا ہو جاتے ہیں؟ بد قسمتی سے ان تمام سوالات کے جواب نفی میں ہیں۔ تاریخ بے شک اپنے آپ کو دہراتی ہے لیکن ہر ملک میں اور ہر شہر میں التحریر چوک موجود نہیں ہے۔ حقیقت کی دنیا اپنے تمام تر مسائل کے ساتھ اس چھے انچ کی سکرین کے باہر ہی موجود ہے اور مختلف ناموں کی آئی ڈیز کے پیچھے چھپنے والوں کے پاس اگر اتنی اخلاقی جرات نہیں کہ جو کچھ وہ پوسٹ میں لکھتے ہیں وہی سب کسی شخص کے منہ پر کہہ سکیں تو آپ کی بات تو بات ہی نہیں شمار ہو سکتی اور آپ خود۔۔۔ خیر چھوڑئے کہ آپ کو کیا کہا جائے۔ یاد رکھیں کہ سوشل میڈیا جسے آج آپ طاقت کا دیوتا تصور کرتے ہیں ، اس سے کئی گنا زیادہ طاقت ور میڈیاز ہمارے ملک میں اخبار اور ٹی وی چینلز رہ چکے ہیں ۔ ان سے وابسطہ بہت سے لوگوں کی گردن میں بھی اتنا ہی سریا تھا جتنا آج آپ اپنی گردن میں محسوس کرتے ہیں۔ ہاتھ بڑھائیے اور اپنی گردن کے سریے کو محسوس کرنے کے بعد نظر اٹھا کر باقی میڈیاز کی حالت بھی دیکھ لیں۔ آپ ان لوگوں سے الگ ضرور ہیں لیکن اتنے بھی نہیں ، اسی لیے آپ کا انجام بھی الگ ہو گا لیکن اتنا بھی نہیں ۔۔۔ تو کیا ضروری ہے کہ اسی انجام کی طرف دوڑ لگائی جائے۔ سوشل میڈیا کو کسی اچھے جذبے اور ملک کی بہتری کے لیے بھی تو استعمال کیا جا سکتا ہے۔ سوشل میڈیا صرف لائکس ، کمنٹس اور ٹریفک لینے کی ذہنی بیماری سے بچتے ہوئے اخلاص، بھائی چارہ ، امن و امان اور حب الوطنی کے فروغ کے لےے بھی ایک اچھا پلیٹ فارم ثابت ہو سکتا ہے۔ اب یہ آپ کے ہاتھ میں ہے کہ ماضی سے سبق نہ سیکھتے ہوئے مستقبل میں ماضی دہراتے ہیں یا پھر آپ ایک مثبت سوچ کے ساتھ اس سوشل میڈیا کو استعمال کرتے ہوئے ایک اچھی اور توانا سوچ کو پروان چڑھاتے ہیں۔(خرم شہزاد)