بلاگ: سید بدرسعید
یہ ایک بدمعاش سیاست دان کی کہانی ہے ۔ وہ اپنے ملازموں کو ماں بہن کی گالیاں بکتا تھا جس کی وجہ سے اس کے خاص ملازم ہی اس کی سبھی حرکتوں کی باقاعدگی سے مخبری کرتے تھے ، ق لیگ کے دور میں جہاں اسے خاصا نوازا گیا وہیں بی اے کی شرط اس کے الیکشن کی راہ میں رکاوٹ بن گئی ۔ اس نے ایمبولینس کے طور پر گاڑیاں منگوا کر لوکل ویگن کے طور پر چلائیں ۔ بہرحال تب۔ چونکہ بلدیاتی سطح پر بھی ڈگری درکار تھی سو بادشاہ سلامت نے میٹرک کا داخلہ بھیج دیا ۔ ایک دن پیپر کے بعد اپنے ملازم کو کتاب پڑھتے دیکھا تو کہنے لگا کیا پڑھ رہے ہو ؟ اس نے کہا : صاحب جنرل سائنس ، بس اس نے سنتے ہی جوتا کھینچ مارا ، ماں کی گندی سی گالی بکتے ہو ئے کہنے لگا : میں نے داخلہ آرٹس میں بھیجا ہے اور تو سائنس کی تیاری کر رہا ہے ، مجھے الو کا پٹھہ سمجھ رکھا ہے ؟؟ ان دنوں بورڈ کے سربراہ محمود الحسن نیازی تھے ، ان تک اطلاع پہنچی تو وہ چھاپا مارنے صبح 6 بجے ہی لاہور سے چل پڑے ، یہ بندہ ہال میں تھا ، اس سے موبائل برآمد ہوا تو بورڈ کے سربراہ سے لڑ پڑا جس پر پولیس نے وقتی طور پر گرفتار کر لیا ۔ نیازی صاحب نے خالی پیپر کراس کیا اپنی نگرانی میں بنڈل سیل کروایا اور لے گئے ۔ یوں صاحب بہادر کا ایک پیپر سپلی میں چلا گیا جو بعد میں اسی طرح حل کروا کر یہ میٹرک پاس ہوئے ۔ نیازی صاحب کہنے لگے ، سب کچھ جانتے ہوئے بھی اتنا ہی کر سکتا تھا کیونکہ اور کوئی ثبوت نہیں تھا ۔ یہ شخص امتحانی ہال میں بس پیپر پر رول نمبر وغیرہ لکھتا اور ٹہکے سے بیٹھا رہتا تھا ، بعد میں امتحانی کاپیاں سیل ہوتیں اور پورا بنڈل اس کے ڈیرے پر لایا جاتا، جہاں اس کا پیپر نکال کر ایم اے پاس ملازم جوتیاں کھاتے اور گالیاں سنتے حل کرتا تھا ۔ پیپر حل ہونے کے بعد بنڈل بورڈ آفس بھجوایا جاتا ۔ کچھ عرصہ بعد اس کا ایک بھائی مخالفین نے بے دردی سے مار دیا اور یہ لاہور آ گیا ، یہاں آ کر اس نے ایک اخبار نکالااوراس اخبار میں بھی کالم نگاروں کے کالم سے ”بوٹی” مار کر اپنے نام سے کالم چھاپا کرتا تھا ۔سوچتا ہوں کبھی فرصت میں ایسی بوٹی کی کہانی بھی لکھوں ، پھر ڈرتا ہوں کہ اتنے معزز شخص کی ایسی داستان پر یقین کون کرے گا ؟ (سید بدر سعید )
(بلاگر کی تحریر سے ہماری ویب سائیٹ کا متفق ہونا ضروری نہیں۔۔علی عمران جونیئر)۔۔