تحریر: سید بدرسعید
اللہ کا کرم ہے کہ ان دنوں میرا پیکج اپنے کئی ہم عصر ساتھیوں سمیت بعض سینئرز سے بھی زیادہ ہے ۔ وہ سینئرز کہ جو کام ، تجربہ اور ذہانت میں مجھ سے آگے ہیں ، جن کا احترام مجھ پر واجب ہے لیکن کسی بھی وجہ سے رب نے اپنی رحمت کے سبب مجھے ہمیشہ میری اوقات سے زیادہ دیا ہے ۔ یہ سچ ہے کہ مالی طور پر مجھے پریشانی کا سامنا نہیں لیکن میرے لوگ مرتے جا رہے ہیں ۔ کئی ساتھی بےروزگار ہو چکے ،کئی دوستوں کی تنخواہ میں کٹوتی ہو چکی ہے اور بہت سے دوستوں کے سر پر ملازمت چھن جانے کے خوف کی تلوار لٹک رہی ہے ۔ حالات یہ ہیں کہ کسی دوست کو یہ کہتے ہوئے بھی ڈر لگنے لگا ہے کہ چلو کہیں چل کر چائے پیتے ہیں ۔ یار یہ وضع دار لوگ تو یہ سوچ کر ہی مر جاتے ہیں کہ اگر پیسے دینے پڑے تو جیب خالی ہے ۔ ان دنوں کوشش ہوتی ہے کہ کہیں چائے پیئیں تو آگے بڑھ کر پیسے ادا کر دوں اس کے باوجود شرمندگی ہونے لگتی ہے کہ کہیں کسی ایک لمحے کے لیے بھی دوست اس خیال سے تو نہیں گزرا کہ جیب خالی ہے کہیں بل کہ دینا پڑے ۔ آوارگی اور پارٹیز کا سلسلہ تو چل رہا ہے لیکن تصاویر اپ لوڈ کرتے ہوئے دل گھبراتا ہے، مہنگی جگہوں پر جاتے ہوئے شرمندگی محسوس ہونے لگتی ہے ۔ اب تو کسی سے گلہ بھی نہیں رہا ، نہ صحافتی قیادت سے ، نہ حکومت سے اور نہ میڈیا مالکان سے ۔ بس ایک عجیب سی اداسی ہے کہ میرے لوگ مرنے کو ہیں ۔ ہو سکے تو انہیں بچا لیں ۔ آج بھی اکاؤنٹ میں تنخواہ آئی تو دل عجیب سی اداسی سے بوجھل ہو گیا ۔ پیسے خرچ کرنے کے لیے بھی تو خوش مزاج دوستوں کا ساتھ چاہیے ۔ خوش مزاجی کو چھوڑیں یہاں تو چائے پینے کا کہتے ہوئے بھی ڈر لگتا ہے ۔ ان لکھنے والے وضع دار لوگوں کو تنخواہ نہیں مل رہی ، ظالم مر جائیں گے ، بھرم نہیں چھوڑیں گے (سید بدر سعید )