تحریر : علی عمران جونیئر
دوستو،قوم پریشان ہے کہ عید سرپر کھڑی ہے اور مہنگائی اتنی بڑھ چکی ہے کہ گھر کا چولہا جلانا مشکل ہوگیا ہے ،فاقہ کشی کی نوبت آگئی ہے اوپر سے قربانی کیسے کریں۔۔ خیر قربانی تو صاحب استطاعت کیلئے ہے، لیکن اس بڑھتی مہنگائی نے صاحب استطاعت لوگوں کو بھی غربت کے درجے پر پہنچا دیا ہے۔۔ جو لوگ کل تک زکوٰة دیتے تھے، اب یہ سوچ کر پریشان ہیں کہ مہینہ پورا باقی ہے گھر کا خرچ کیسے چلائیں؟؟ ہر چیز کے نرخ آسمان کو چھورہے ہیں۔۔ حد تو یہ ہے کہ ٹرانسپورٹ کرائے اتنے بڑھ چکے ہیں کہ جہاں پہلے آنے جانے کے جو کرایہ ہوتا تھا وہ اب یکطرفہ کرایہ ہوگیا ہے۔ کراچی اتنا بڑا شہر ہے کہ اس کے ایک علاقے سے دوسرے علاقے میں پبلک ٹرانسپورٹ سے سفر کرنے میں دوسے ڈھائی گھنٹے آرام سے لگ جاتے ہیں، یہ تقریبا اتنا ہی سفر ہے جتنا پنجاب میں ایک شہر سے دوسرے شہر میں سفر کے دوران لگتے ہیں۔ جن کے گھروں میں ایک ہی کمانے والا، گھر کرائے کاہو،دو،تین بچے ہوں، سوچیں اس کا گزارہ کیسے ہورہا ہوگا؟؟دعاکریں، اللہ پاک تمام لوگوں کے لئے آسانیاں پیدا فرمائے اور ایسے اسباب بنائے کہ وہ کسی کے محتاج نہ رہیں، آمین۔۔
ایک مولوی صاحب کا پاجامہ درزی نے ذرا لمبا کر دیا۔ مولوی صاحب شرعی لباس، یعنی ٹخنوں سے اونچا پائجامہ پہنا کرتے تھے۔ بیگم سے کہا کہ۔۔ جمعہ سے پہلے ذرا پاجامہ چار انچ چھوٹا کردینا۔ بیگم روز مرہ کی مصروفیت میں بھول گئیں۔ دوسرے دن مولوی صاحب نے بیٹی سے کہا کہ۔۔ ذرا پاجامہ چار انچ کم کردینا۔ بیٹی بھی ٹال گئی۔ ۔تیسرے دن مولوی صاحب نے بہو سے پاجامہ چار انچ کم کرنے کا کہا۔۔ بہو بھی بھول گئی۔ جمعہ کے دن آن پہنچا تو اچانک بیگم کو خیال آیا کہ آج جمعہ ہے اور مولوی صاحب نیا پاجامہ پہن کر جمعہ ادا کرنے جائیں گے۔ انہوں نے اپنے کمرے میں لے جا کر جلدی جلدی چار انچ کاٹ کر بخیہ مار دیا اور پاجامہ رکھ آئیں۔ ۔کچھ دیر بعد بیٹی کو خیال آیا تو اس نے بھی پاجامہ چار انچ کاٹ کر سلائی مار دی۔۔ اس کے بعد بہو نے بھی یہی عمل دہرایا۔ ۔دوپہر جب مولوی صاحب نے غسل کر کے پاجامہ پہنا تو وہ کچھا بن چکا تھا۔!! واقعہ کی دُم: غریب عوام کی مالی حالت بھی ہر بجٹ میں نئے نئے ٹیکس لگ کر مولوی صاحب کے پاجامے جیسی ہوگئی ہے۔! جس حکومت کو یاد آتا ہے کہ خسارہ کم کرنا ہے تو وہ نیا ٹیکس لگا کر آمدنی کو مزید چھوٹا کردیتا ہے۔۔اصل میں حکومت سے بڑا ”فنکار“ کوئی نہیں ہوتا۔۔ وزرا،مشیر اپنے بیانات کو ایسا ”ٹوئسٹ“ کرتے ہیں کہ سننے والا سرپکڑ کر بیٹھ جاتا ہے۔۔ایسے ہی ہمارے ایک دوست ہیں جن کی عقل بھی ان کے جسم کی طرح بہت موٹی ہے۔۔ ہمارے پیارے دوست نے ہمارے دوست کو جو قَوی ال±جُثَّہ (بھاری بھرکم وجود والے)ہیں، کو خط لکھا۔ خط کے آغازمیں بڑے خلوص اور محبت سے لکھا۔۔ ”اَنیسِ من سلامت رہو۔“۔۔بھاری بھرکم دوست نے جب خط کو کھولا تو پہلی ہی سطر پڑھ کر آگ بگولا ہوگیا۔۔ فوراً جوابی خط لکھنا شروع کیا اور چھوٹتے ہی یہ فقرہ لکھا۔۔میں اگر اُنیس مَن ہوں تو اپنے گھر سے کھاتا ہوں، تمہیں اس سے کیا تکلیف ہے؟۔۔
کچھ ”دانش۔وڑوں“ کا کہنا ہے کہ ۔۔مہنگائی ہوتی نہیں، محسوس کی جاتی ہے، اگر آپ مہنگائی کے حساب سے اپنی آمدنی نہیں بڑھاتے تو پھر سمجھ لیں کہ مہنگائی آپ کو لازمی محسوس ہوگی۔ ۔ ہم جب دانش وڑوں کی یہ باتیں پڑھتے ہیں تو واقعی ہمیں بھی ایسا لگتا ہے۔ سپراسٹورز میں جس طرح لوگ اندھادھند خریداری کرتے ہیں۔ جو بل بنتا ہے خاموشی سے ادا کردیتے ہیں۔۔ مہنگے ہوٹلوں میں جس طرح گھنٹہ گھنٹہ ”ویٹنگ روم“ میں بیٹھ کر اپنی باری کا انتظار کرتے ہیں ، پٹرول پمپس پر جس طرح قطاریں لگاکر پٹرول بھرواتے ہیں، اس حساب سے ہمیں بالکل نہیں لگتا کہ ملک میں مہنگائی ہے۔۔ایک وفاقی وزیرنے چائے کے کپ کم کردینے کا مشورہ دے دیا۔۔ اگلے ہی دن ایک چائے کا دیوانہ ایک مہنگے ہوٹل میں چائے کا کپ سامنے رکھے اپنی سوچوں میں غرق تھا۔۔اچانک ایک لڑکی قریب آئی۔۔ ایکسکیوزمی، کیامیں یہاں بیٹھ سکتی ہوں؟؟ چائے کے دیوانے نے آنکھیں کھول کر اسے دیکھا اور گردن ہلاکر اسے بیٹھنے کا کہا۔۔ لڑکی نے سوچا ، بات کیسے شروع کروں تو اس نے ہمت کرکے پوچھ ہی لیا۔۔ کیا آپ چائے پیتے ہو؟ دیوانہ بولا، یہ چائے کا کپ ہی ہے کسی کولڈڈرنک کی بوتل نہیں پڑی۔۔ لڑکی سٹپٹا گئی، کہنے لگی، میرا مطلب تھا ، کتنے کپ پی لیتے ہیں روزانہ ؟؟ دیوانہ بولا۔۔ دس سے پندرہ کپ روزانہ۔۔لڑکی نے جلدی سے حساب کتاب لگا کرپوچھا۔۔کب سے پی رہے ہو؟؟ دیوانہ کہنے لگا، بیس سال ہوگئے۔۔لڑکی کہنے لگی۔۔ اوہ، اس کا مطلب ہے اگر آپ روزانہ دوہزار روپے کی چائے پیتے ہیں تو مہینے کے ساٹھ ہزار روپے بنے، اسی طرح حساب لگائیں تو سال کاسات لاکھ بیس ہزار روپے بنتا ہے، اور بیس سال کے ایک کروڑ چوالیس لاکھ روپے بنتے ہیں۔۔کیا تم جانتے ہو کہ ایک کروڑ چوالیس لاکھ میں بہترین بلٹ پروف فورچیونر گاڑی آجاتی ہے، جسے تم آسانی سے خرید سکتے تھے۔۔۔دیوانے نے نیم وا آنکھوں سے لڑکی کو دیکھا اور سوال کیا۔۔ کیا آپ بھی چائے پیتی ہیں؟؟لڑکی نے جواب دیا۔۔ نہیں، میں نے کبھی ہاتھ بھی نہیںلگایا چائے کے کپ کو۔۔دیوانہ کرسی سے اٹھتے ہوئے بولا۔۔ چلو پھر اپنی بلٹ پروف فورچیونر گاڑی دکھاو¿، کہاں پارک کی ہے؟؟
ایک بیکری پر کیک سلائیس لینے گیا۔۔ہم سے آگے ایک خوبرو دوشیرزہ موجود تھی۔۔ اس نے کاونٹر بوائے سے شوکیس میں لگی پیسٹریوں کے متعلق پوچھا۔سیلز مین کچھ یوں بتانے لگا۔۔۔میم ۔۔ یہ بلیک فاریسٹ ہے، یہ ہنی آلمنڈ ہے، یہ ریڈ ویلوٹ ہے، یہ تھری ملک ہے، اور یہ۔۔ اور یہ۔۔۔اس دوشیزہ نے کچھ سلیکٹ کیا اور سائیڈ پہ ہو گئیں۔ ۔اب ہماری باری تھی۔۔ہم نے اسی سیلزمین سے پوچھا۔۔اس والے شوکیس میں کون کون سی پیسٹریز ہیں؟؟۔۔آگے سے بڑے سخت لہجے میں جواب ملا۔۔یہ اس طرف سو والی ہیں اور یہ ڈیڑھ سو والی۔۔جب داماد دو مہینے تک اپنے سسرال میں رہا تو لڑکی کی ماں نے بیٹی سے کہا ۔۔پتر، داماد جی نے واپس نئیں جانڑاں واہ واہ ٹائم ہوگیا ۔۔بیٹی نے کہا ،تسی آپ ای پچھ لو جاکے ۔۔ساس گئی اور داماد سے کہا۔۔ بیٹا توں واپس نئیں جانڑاں؟ دو مہینے ہوگئے تیری امی تے گھر والے اڈیکدے ہونڑیں؟ ۔۔داماد نے جواب دیا ۔۔دہاڈی دھی ساڈے گھر چھ چھ مہینے رہ آندی اسی تے کدی گل نئیں کیتی ۔۔ساس نے کہا، پتر اوہدا تے اس گھر ویاہ ہویا اے ۔۔داماد بولا۔۔تے میں کیہڑا بل تارن آیا واں میرا وی اس گھر ویاہ ای ہویا اے۔۔
اور اب چلتے چلتے آخری بات۔۔اگر تم وہ حاصل نہ کر سکے جو تم چاہتے ہو تو تم تکلیف میں رہو گے۔ اگر تم وہ حاصل کرلو جو تم نہیں چاہتے تو تم تکلیف میں رہو گے۔ حتیٰ کہ تم وہی حاصل کرلو جو تم چاہتے ہو تب بھی تم تکلیف میں رہو گے کیونکہ تم اسے ہمیشہ اپنے پاس نہیں رکھ سکتے۔ خوش رہیں اور خوشیاں بانٹیں۔۔