تحریر: شکیل احمد بازغ۔۔
علامہ محمد اقبال کی ماہیت قلبی پر سوزِ دروں کا عالم اسوقت کیا ہوتاہوگا جب وہ امت مسلمہ کو آئندہ زمانوں کے اندیشوں سے خبردار کر رہے تھے۔ اس قدر نورِ بصیرت پا کر کیا وہ سو بھی پاتے ہوں گے؟ کفار کی سازشوں سے لیکر مسلمانوں کی غفلت تک ہر شے سوچ سوچ وہ کلپتے ہوں گے۔ وہ اگر آج ہوتے تو انکے خواب یعنی پاکستان پہ ابلیسی شورٰی کے قبضے کو دیکھ کر ان پر کیا گزرتی۔ اسلام اور اقبال کو سمجھنے والے اہل نظر پاکستان پر اغیارکے بڑھتے قبضے کو دیکھ کر آج سانس بھی لینا گراں سمجھ رہے ہیں۔
“ایک چونکا دینے والی خبر”
عمومی طور پر عوام حکمرانوں کے سیاہ کرتوتوں سے بے خبر ہوتے ہیں۔ کیونکہ مکر ہمیشہ عوامی فلاح کے لباس میں پیش ہوتا ہے۔ اور عوام کو غفلت سامانیاں میسر کرکے ان کی توجہ حقائق سے دور رکھی جاتی ہے۔ لیکن عید ایسے دنوں کی گہما گہمی میں جب عام لوگ ضرورت سے زیادہ بے خبر رہتے ہیں۔ عوامی بے توجہی کے ایسے مواقع حکمرانوں کے کیلئے موقع غنیمت ہوتے ہیں عید کے دوسرے روز نیم دیسی کثیر ولایتی وفاقی وزیر خزانہ محمد اورنگزیب کہتے ہیں،،، کہ اگر اس ملک کو آگے جانا ہے تو سب کچھ نجی سیکٹر کے حوالے کرنا ہوگا، ، کراچی اور لاہور کے ایئرپورٹ آؤٹ سورس کریں گے، حکومت کا خسارہ اور بوجھ کم کرنا پڑے گا اور ہم کرنے جا رہے ہیں، ہم گورننس کو آؤٹ سورسنگ کی طرف لے جارہے ہیں۔
پورے ملک کی مجموعی قابض اشرافیہ اور ابن الوقت پلٹون کو ذاتی قابلیت ذہانت اور دیانتداری سے ملک کو آگے لے جانے والے مردِ حُر کا قال ہے جسے قحط الرجال کہتے ہیں جس کا اعتراف دراصل وزیر موصوف کر رہے ہیں۔
یہ کوئی عام بات نہیں۔ مقامِ فکرِ بقاءِ وطن ہے۔ سادہ الفاظ میں سمجھا جائے تو جب ملک کا ہر ادارہ ہر شعبہ ہر کونا کسی محب وطن حاکم کے قابو اختیار اور قومی ملکیت میں ہو۔ ملک پر دشمنوں کا قابو کم تر ہو جاتا ہے۔ وزیر موصوف کہہ رہے ہیں۔ کہ ایئر پورٹس (جنہیں کسی ملک کا دروازہ کہا جاتا ہے) کو بیرونِ ملک سرمایہ کاروں کی تحویل میں دیں گے۔ گھر کے دروازے پر لوگ غیر محلے کا کُتا نہیں بیٹھنے دیتے یہاں گھر کے دروازے کو غیر کے قبضہ ( کلی یا جزوی) میں دینے کی بات ہو رہی ہے۔ اگر ایسا ہوجائے تو نہ گھر کے مکینوں کے راز باقی رہتے ہیں، نہ وسائل محفوظ اور نہ پردے اور حمیت کا بھرم باقی رہتا ہے۔ دوسری اہم ترین بات جو انہوں نے کی کہ ملک کا سب کچھ آؤٹ سورس کرکے گورننس ہی کو آؤٹ سورس کرنے جا رہے ہیں۔ بالواسطہ تو پہلے ہی ملک عالمی صیہونی گروہ کے اختیار میں ہے۔ اعلان باقی رہ گیا تھا۔ جو وزیر موصوف نے مسلمانوں کے عید تہوار کے لباس میں کر دیا۔ ہم جانتے ہیں کہ ملک پہ حکمران کی بات ہو، نظام کی بات ہو، اداروں کے سربراہان کا معاملہ ہو، آئین و قانون کا معاملہ ہو یا اس کے نفاذ کا معاملہ ہو، تہذیب و ثقافت، قوم کی تعلیم و تربیت کسی بھی پہلو کو دیکھ لیں۔ اس پر اغیار کی پالیسیز کے مطابق عمل ہو رہا ہے۔ ملک کو عالمی ساہوکار کی من مرضی کے مطابق بدل کر قوم میں مغربیت و مادیت پرستی کو قبول کرنے کا انتظام و انصرام پہلے ہی سے طے شدہ منصوبے کے تحت اغیار کے نمائندوں کے قبضے میں ہے۔ لیکن وہ جو ہم سنتے ہیں کہ ایک وقت آنے والا ہے جب کہا جائے گا۔ کہ پوری دنیا کا ایک ہی قانون ہو اور ایک ہی حکمران ہو تاکہ پوری دنیا کے لوگ بلا امتیازِ رنگ و نسل و مذہب عالمی حکمران( صیہونی) کے مطابق زندگی گزاریں، جو حلال حرام وہ کہیں وہی کھاؤ، جو وہ کہیں وہ پہنو، جسے وہ درست مانیں سب اسے درست مانیں جو انہیں غلط لگے وہ سب کو غلط لگے اس کی طرف بڑھنے کیلئے پاکستانیوں کو اگلا قدم اٹھا کر موجودہ پاکستانی غاصب پلٹون دکھا رہی ہے۔ ایک ایک کرکے ہر ادارہ ہر شعبہ عالمی سرمایہ داروں یا ان کے نمائندوں کے سپرد کردینے سے ایک وقت یہ بھی آئے گا کہ ان اداروں ایوانوں حتٰی کہ شہر اقتدار نظام قانون اور آئین پر انہی عالمی سامراج کا اعلانیہ قبضہ ہو چکا ہوگا۔ پاکستان نظریاتی طور پر پاکستان نہیں رہے گا۔ عوام کے ہاتھ میں شاید یہ جھنڈا بھی نہ ہو جسے ہم ہر 14 اگست کو لہراتے پھرتے ہیں۔ اور عین ممکن ہے کہ اقوام متحدہ کے فورم سے ایک عالمی جھنڈا ہمیں بھی تھما دیا جائے کہ اسے لہراؤ اور ہمارے کفریہ ترانے گنگناؤ، جب آپ نے عالمی اسلام دشمن ساہوکار کو گورننس بھی دے دینی ہے تاکہ آپ کے جھوٹے خدا یعنی معیشت کی پرستش ہو سکے تو ایسی ترقی اور جدیدیت سے سب سے پہلے اسلام ہی مغلوب ہوگا۔ جو کہ عالمی غنڈوں اور مسلمانوں کے قاتلوں کا اولین ایجنڈا ہے۔
ملک ان کے ہاتھ میں ہے جنہیں اونٹ کی ٹانگ کاٹنے کا رنج کھائے جا رہا ہے۔ لیکن غزہ کے مسلمانوں کے ٹکڑے ہونے کا منظر یہ صیہونیوں کی عینک سے دیکھ کر خاموشی سے محضوظ ہو رہے ہیں۔
وزیر موصوف کی ملک کی ہر شے عالمی کمپنیوں کے حوالے کرنے کی بات ذاتی رائے نہیں ہو سکتی بلکہ پورے غاصب حکمران قبیل کی نیت کی ترجمانی ان صاحب نے ہنستے ہنستے کر دی کہ ہم ملک عالمی سرمایہ داروں کے حوالے کر رہے ہیں۔ قرآن کی یہ آیت پڑھ لیں اور پھر سوچیں اگر سوچ باقی ہے تو۔
“اے ایمان والو یہود و نصارٰی کو دوست نہ بناؤ وہ آپس میں ایک دوسرے کے دوست ہیں اور تم میں جو کوئی ان سے دوستی رکھے گا تو وہ انہیں میں سے ہے بے شک اللہ بے انصافوں کو راہ نہیں دیتا” (المائدہ، 120)
مزید فرمایا کہ ’’ اَلْکُفْرُ مِلَّۃٌ وَّاحِدۃٌ‘‘ کفر ایک ملت ہے۔ (مدارک، المائدۃ، تحت الآیۃ: ۵۱، ص۲۸۹)
یہاں دوستی سے بڑھ کر ملک انہی کے حوالے کیا جا رہا ہے تاکہ نظریہ اسلام پر بنے اس ملک سے اسلام کو آہستہ آہستہ ہنستے ہنستے بے دخل کرکے یہود و نصارٰی کا علمی فکری عملی قبضہ میں دے دیا جائے۔
کیا کوئی ہے جو سمجھے سنے اور ظالم کے ہاتھ کو روکے؟
کل ایک فقیر منش کہہ رہے تھے۔ “دل و دماغ پر اسلام غالب ہو تو کفار کی سازشوں کی باریکیاں بھی فوری سمجھ آ جاتی ہیں، ورنہ دنیا دار کی عقل کو نوشتہ دیوار بھی نہیں پڑتا۔۔اللہ ہمیں عقل سلیم، جہاد سے محبت اور اسلام کی فرزندی عطا فرمائے آمین۔واللہ اعلم۔(شکیل احمد بازغ)۔۔