سینئر صحافی، کالم نویس، تجزیہ کار اور اینکرپرسن سہیل وڑائچ نے کہا ہے کہ ۔۔کوئی مانے نہ مانے دھواں تو مسلسل اٹھ رہا ہے۔ سوال یہ ہے کیوں اٹھ رہا ہے اور کہاں سے اٹھ رہا ہے؟ اس کا آسان جواب یہ ہے کہ اہل اقتدار اور عوام میں ایک بہت بڑا خلا ہے، اس خلا کی وجہ سے بے اطمینانی ہے، افواہیں ہیں، بے یقینی ہے، پراپیگنڈاہے، فیک نیوز ہے، سازشی کہانیاں ہیں اور سب سے بڑھ کر مایوسی ہے۔ ظاہر ہے کہ سب سے بڑی وجہ تو سیاسی تلاطم ہے مگر خلا کے بڑھنے کی وجہ اہل اقتدار اور عوام میں ابلاغ کا فقدان ہے۔ حکومت کا کوئی وزیر ہو یا میرے گائوں کا کوئی دیہاتی، کسی کو علم نہیں کہ اہلِ اقتدار کا سیاسی ایجنڈا کیا ہے، وہ ملک کو کدھر لے جانا چاہتے ہیں۔ جب اہل اقتدار کسی کو بتائیں گے ہی نہیں کہ وہ چاہتے کیا ہیں تو لوگ ٹامک ٹوئیاں ہی ماریں گے، کبھی کہیں گے جیل کے دروازے کھلنے والے ہیں اور کبھی اندازہ لگائیں گے کہ کچھ بھی ہو جائے جیل کے بند کواڑ کھلتے نظر نہیں آتے۔روزنامہ جنگ میں اپنے تازہ کالم میں وہ لکھتے ہیں کہ ۔۔ امریکی صدر کی کوریج کیلئے وائٹ ہائوس کے اندر ایک بریفنگ روم ہے، صدر کو کور کرنے کیلئےدنیا بھر کے رپورٹر مستقل طور پر واشنگٹن میں تعینات ہیں، صدر کا ترجمان ہر روز انہیں بریفنگ دیتا ہے، گاہے گاہے صدر خود انہیں ملتا ہے اور ان صحافیوں میں سے اکثر سے اس کی ذاتی واقفیت بھی ہوتی ہے۔ امریکی محکمہ دفاع پینٹاگان بھی باقاعدہ صحافیوں کو بلا کر ہر پالیسی کے بارے میں بتاتا ہے، مخالفانہ سوالوں اور اعتراضات کا جواب دیتا ہے یہی وجہ ہے کہ امریکی پالیسی کے حوالے سے بے سروپا باتوں سے قطع نظر محکمانہ بریفنگز کے ذریعے حکومتی موقف مسلسل لوگوں تک پہنچایا جاتا ہے۔وہ لکھتے ہیں کہ ہمارے پیارے تضادستان میں دھواں اس لئے اٹھتا ہے کہ حکومت اور وزیر اعظم نہ بریفنگز دیتے ہیں نہ مخالفانہ سوالوں اور اعتراضات کا سامنا کیا جاتا ہے۔ وزیر اعظم اور حکومت کا سیاسی ایجنڈا کیا ہے؟ عمران خان سے صلح ہو گی یا لڑائی جا رہے گی کسی کو صحیح طرح سےعلم نہیں۔ کوشش کی جاتی ہے کہ وزیر اعظم میڈیا سے دور رہیں ، نہ رہے گا بانس نہ بجے گی بانسری۔ مگر اس پالیسی کا نتیجہ یہ ہے کہ حکومت اور عوام میں خلا بڑھتا جا رہا ہے۔
ہماری مقتدرہ اپنا موقف آئی ایس پی آر کے ذریعے بیان کرتی رہتی ہے مگر روایت یہی تھی کہ سینئر ترین ایڈیٹرز اور اینکرز کو بلا کر آرمی چیف خود بریفنگز دیتے تھے اور ہر طرح کے سوالات کا سامنا بھی کرتے تھے، اب یہ سلسلہ بھی موقوف کر دیا گیا ہے، اب میڈیا مکمل اندھیرے میں ہے کہ مقتدرہ یا اس کے سربراہ کیا چاہتے ہیں؟ اگر ان سے میڈیا کا مکالمہ ہوتا تو میڈیا انکی شخصیت کا جائزہ لیتا، سوال جواب کے ذریعے ان کے موقف کو پرکھتا اور پھر انکی پالیسیوں کی حمایت یا مخالفت میں بیانیہ بنتا مگر مکمل خاموشی اور راز داری کی پالیسی سے مقتدرہ اور میڈیا اور نتیجے کے طور پر عوام میں ایک بڑا خلا پیدا ہو گیا ہے، ہر کسی کو سنی سنائی باتوں اور افواہوں کی مدد سے سیاسی نقشہ کھینچنا پڑتا ہے جو اکثر اوقات غلط ثابت ہوتا ہے۔ جب تک میڈیا کی اطلاعات تک براہ راست رسائی یقینی نہیں بنائی جاتی، یہ خلا رہے گا۔سہیل وڑائچ کا کہنا ہے کہ ۔۔عمران خان نے ذرائع ابلاغ کو فتح کر رکھا تھا وہ ہر روز اپنا موقف، اپنا بیانیہ، کبھی سوشل میڈیا اور کبھی مین سٹریم میڈیا کے ذریعے عوام تک پہنچاتے تھے۔ وہ وزیر اعظم تھے یا وہاں سے ہٹائے گئے دونوں صورتوں میں وہ صبح اپنی پہلی میٹنگ میڈیا سٹرٹیجی پر کرتے تھےگو ان کا انداز ہر مخالف رائے کو دبانے اور حق میں آنے والی بدتمیزی اور گالی کی حوصلہ افزائی کا تھا مگر وہ آج کے دور میں ابلاغ کی اہمیت کو صحیح طور پر سمجھ کر اس کا استعمال کرتے رہے، انکے مخالفین آج تک اس حکمت عملی کا توڑ نہیں کر سکے کیونکہ وہ نہ میڈیا کو ترجیح دیتے ہیں نہ اپنے موقف کے ابلاغ کیلئے تیار ہیں۔ پیپلز پارٹی میڈیا پالیسی کے حوالے سے سب سے کمزور ہے، سندھ حکومت کا تعلیمی بجٹ سب صوبوں سے زیادہ ہے، صحت کے شعبے میں انہوں نے کمالات دکھائے ہیں مگر سندھ کے وزیر اعلیٰ مراد علی شاہ انتہائی قابل ہونے کے باوجود میڈیا سے ڈرتے ہیں، اس لئے پیپلز پارٹی اپنے اچھے کام بھی لوگوں کے سامنے پیش کرنے سے قاصر ہے۔ آج کل کی دنیا میں آپ لاکھ قابل اور ویژنری ہوں، اگر آپ ابلاغ کی دولت سے مالا مال نہیں تو عوام تک اپنا موقف پہنچا ہی نہیں سکیں گے۔ مسلم لیگ نون کو چلانے والے پرانی سوچ کے حامل ہیں وہ خاموشی کو حکمت علمی سمجھ کر لوگوں کو صرف اپنا کام دکھا کر مطمئن کرنا چاہتے ہیں مگر سیاسی بیانیے کے بغیر آپ ملک کو جنت نظیر بھی بنا دیں تو الیکشن جیتنے کی ضمانت نہیں دی جا سکتی۔ ہمارے اکثر ادارے ابلاغ کے جدید تصور اور اہمیت سے ہی ناواقف ہیں، ان کی اسی ناسمجھی کی وجہ سے مین سٹریم میڈیا پر پابندیاں عائد ہو رہی ہیں جس سے اس کا معاشرے پر اثر اور اعتماد کم ہو رہا ہے، دوسری طرف سوشل میڈیا پر بے بنیاد خبروں سے لوگوں کے چسکے میں اضافہ ہو رہا ہے اور انکے تجسس کو بھی خوراک مل جاتی ہے۔وہ آخر میں لکھتے ہیں کہ اگر ملک میں دھویں کو اٹھنے سے روکنا ہے تو ابلاغ کے راستے کھولیں۔ اپنے دل کی بات کہنے کا حوصلہ کریں ہو سکتا ہے کہ وہ بات اتنی وزنی ہو کہ سارے بیانیوں کو شکست دیدے، آج کل خاموشی کے معنیٰ ’’پلے کچھ نہ ہونے کے ہیں‘‘۔ میری خوش امیدی کہتی ہے کہ ہر ادارے اور ہرشخص کا بیانیہ ہوتا ہے اور اس میں کچھ نہ کچھ حقیقت بھی ہوتی ہے، ابلاغ اور مکالمے سے راستے کھلتے ہیں، خاموشی اور ہچکچاہٹ سے کھلے راستے بھی بند ہو جاتے ہیں۔