تحریر: منصور آفاق۔۔
حکومت سے حسن نثارکچھ کچھ مایوس ہوتے جارہے ہیں ۔کیا کریں توقعات بہت زیادہ وابستہ کر لی تھیں ۔اوپر سے حکومت نے کئی بلنڈر کیے۔جن کا اظہار اسد عمر نے خود کیا ہے۔ ابھی وقت ہے ۔اپنی غلطیاں درست کرنے کا۔ خاص طور پر میڈیا کے ساتھ تعلق کے ایک نئے دور کا آغاز ضروری ہے۔
میڈیا اور حکومت کی لڑائی میں ہزاروں لوگ بے روزگار ہوچکےہیں۔حکومت اگر سالانہ آٹھ دس ارب کے اشتہارات میڈیا کےلئے مختص کر دے تو ریاست کا یہ گرتا ہوا ستون دوبارہ طاقت پکڑ سکتا ہے ۔ اخبارات اور ٹی وی چینلز کے بدن میں نئی روح پڑ سکتی ہے۔دشمن میڈیا ، دوست میڈیا میں تبدیل ہو سکتا ہے ۔ حکومت کو سوشل میڈیا سے خوف زدہ ہونے کی بجائے اس کی بھی سر پرستی کرنا چاہئے۔ سوشل میڈیا کی بدولت خاصے ڈالرپاکستان آرہے ہیں ۔یہ باہر سے آنے والا سرمایہ کئی گنا بڑھ سکتا ہے۔خاص طور پر پنجاب حکومت کو تواِس سمت فوری توجہ دینا چاہئے۔
سوال پیدا ہوتا ہے’شراب لائسنس کیس ‘میں میڈیا کیوں یک طرفہ دکھائی دیا۔یہ معاملہ تواُس وقت ٹھنڈا ہوا جب وزیر اعظم پاکستان عمران خان نے کہا کہ میں نےعثمان بزدارکے بارے میں آئی بی سے ایک ایک الزام چیک کرایا ہے ۔اُن پرشراب لائسنس کاکیس مذاق ہے ،شراب لائسنس بارے میں پوچھناایکسائزکاکام ہے ، عثمان بزدارکامسئلہ ہے وہ میڈیاپراپنادفاع نہیں کرتے ،ان پر کوئی بھی الزام آسانی سے لگایا جاسکتا ہے ۔میں سمجھتا ہوں پنجاب ٹھیک سمت میں اور تیزی سے آگے بڑھ رہا ہے ۔جہاں تک نیب کی بات ہے تو شاید ہی کوئی بڑا لیڈر ایساہو جسے نیب کا بلاوانہ آیا ہو ۔یا جسے بلانے کےنیب والےخواہشمند نہ ہوں ۔ سابق حکمران ہوں یا موجودہ تقریباً سب پندار کا صنم کدہ ویراں کئے ہوئے نیب کے کوئے ملامت سے ہو آئےہیں۔
مگر جس طرح عثمان بزدار نیب کی امتحان گاہ میں داخل ہوئے ۔وہ انداز بالکل مختلف تھا ۔وہ جانتا تھا کہ وہ سب سے بڑے صوبے کا وزیر اعلیٰ سہی ۔لامحدوداختیارات کا حامل سہی مگر قانون کے آگے سر جھکانے میں ہی بڑائی ہے۔ عثمان بزدار ،ماضی کے حکمرانوں کی طرح نہ توخود پر پھول برسانےوالے اپنے ساتھ لے کر گئے اورنہ ہی پولیس پر سنگ باری کرنے والے۔ثابت کیا کہ وہ مریم نوازاور شہباز شریف سے زیادہ میچورہیں۔ صرف پیشی والے دن ہی نہیں بلکہ پیشی سے پہلے اور بعد میں بھی، انکا موقف بہت سیدھا تھا۔
انہوں نے اپنا موقف سمجھانے کے لئے نہ ہی نیب کی قیادت کی کریڈیبلیٹی پر الزام لگائے اور نہ اداروں کو برا بھلا کہنے کی روش اپنائی ۔یہی کہتے رہے کہ ایک نہیں دس مرتبہ بھی نیب نے بلایا تو وہ پیش ہونگے۔ اس سے بڑا ایمانداری کا ثبوت اور کیا ہو سکتا ہے کہ وقت کا وزیر اعلیٰ ایک بے بنیاد کیس کیلئے اس لئے حاضر ہوا کہ اس کی نظر میں قانون سے بالاتر کوئی نہیں۔ مجھے یقین ہے کہ اگر عثمان بزدار چند سال اور پنجاب کے وزیر اعلیٰ رہ گئے تو پنجاب میں نظام کی تبدیلی کے ساتھ ساتھ وہ یہاں کے سیاسی ماحول کو بھی یکسرتبدیل کر کے رکھ دیں گے ۔
جہاں تک بات ہے نیب میں کئے جانے سوالوں کی تو وزیر اعلیٰ نے سابق وزیر اعلیٰ کی طرح وہاں جاکر سوال گندم اور جواب چنا کی حکمت عملی نہیں اپنائی۔ بلکہ سوالنامے پر دلائل سمیت جوابات جمع کروائے ۔ یہاں یہ بات غور طلب ہے کہ چاہے یہ شراب لائسنس بزدار صاحب کے دور میں جاری ہوا مگر یہ کوئی انہونی نہیں ہوئی ۔
اس سے پہلے ادوار میں 11 لائسنس جاری کئے جا چکے ہیں جن میں سے 9 ڈی جی ایکسائز نے جاری کئے اور 2 گورنر کی جانب سے جاری ہوئےمگربزدار صاحب کے دور میں لائسنس جاری ہوا تو تحقیقات شروع کی گئیں کہ اس لائسنس کے اجرا میں وزیر اعلیٰ ملوث ہیں یا نہیں؟۔ انہوں نے اختیارات کا ناجائز استعمال کیا ہےیا نہیں ؟۔
حقائق صرف اتنے ہیں کہ جب محکمہ ایکسائز کی جانب سے شراب لائسنس کیلئے وزیر اعلیٰ آفس سمری پہنچی تو یہ کہہ کر واپس کردی گئی کہ محکمہ ایکسائز اس کا مجاز ہے ۔ یہ وزیر اعلیٰ کے دائرہ ِاختیار سے باہر ہے ۔اس کا فیصلہ خود ایکسائز کرے۔ وزیر اعلیٰ کی اس دوران ایک مرتبہ بھی ڈی جی ایکسائز سے ون آن ون ملاقات نہیں ہوئی۔ اگر وزیر اعلیٰ کو اس لائسنس میں دلچسپی ہوتی تو پنجاب حکومت اس کے اجرا کو معطل کیوں کرتی اور پھر کورٹ میں بھی اس لائسنس کے خلاف موقف کیوں اختیار کرتی؟ مگر لائسنس 2019 میں لاہور ہائی کورٹ کے احکامات پر بحال کردیا گیا۔ یہ کیس دراصل عثمان بزدار پر کیچڑ اچھالنے سے زیادہ ان کی پاک دامنی کا ثبوت پیش کررہا ہے۔میں نے حسن نثار کے گوش گزار یہ سارے حقائق کئے ۔وہ تمام لوگ بھی زیر بحث آئے جو وزیر اعلیٰ بننے کی خواہش میں عثمان بزدار کے خلاف مسلسل مصروف عمل ہیں ۔
دن رات وزیر اعلیٰ بننے کا خواب دیکھتے ہیں ۔انہیں یقین ہے کہ بس عثمان بزدار کے جانے کی دیر ہے ۔وزارت ِ عظمی کا ہما ان کے کاندھے پر آبیٹھے گا۔حالانکہ جہاں تک عمران خان کومیں جانتا ہوں ان میں سے ایک بھی عمران خان کے دورِ حکومت میں وزیر اعلیٰ نہیں بن سکتا۔ (بشکریہ جنگ)۔