geo news se meera istefa

دوپٹے پر صحافت۔۔

تحریر: انصار عباسی

سوشل میڈیا کے ذریعے پھیلائی جانے والی ایک ویڈیو کی بنیادپر ہمارے کچھ ٹی وی چینلز نے بریکنگ نیوز دی کہ پنجاب سیکرٹریٹ میں ایسی خواتین کو داخلہ سے روک دیا گیا ہے جو دوپٹہ نہیں لیتیں۔ وڈیو میں ایک سیکورٹی اہلکار خاتون کو روکتے ہوئے بتایاہے کہ یہ پابندی وزیر صحت ڈاکٹر یاسمین راشد نے اُس وقت لگائی جب چند خواتین نامناسب لباس پہنے سرکاری دفاتر پہنچ گئیں۔ جس خاتون کو روکا گیا اُس کو ویڈیو میں کہتے سنا گیا کہ اُس کا لباس تو غیر مناسب نہیں تھا اگرچہ دوپٹہ اُس کے لباس میں شامل نہ تھا۔ ٹی وی چینلز کو اعتراض یہ تھا کہ بغیر دوپٹہ خاتون کو کیوں روکا گیا؟؟ جیسے ہی یہ خبر چینلز پہ چلنے لگی تو توقع کے مطابق ڈاکٹر یاسمین راشد صاحبہ نے یہ وضاحت دی کہ اُنہوں نے کوئی ایسی ہدایت جاری نہیں کی۔ جب یہ خبر چلائی گئی تو کسی نے یہ بات نہ کی کہ آخر اس ہدایت میں کیا خرابی ہے کہ مناسب لباس پہن کر سرکاری دفاتر میں آیا جائے بلکہ یہ تو اسلامی تعلیمات اور آئین پاکستان کے روح کے عین مطابق ہے۔ مجھے افسوس اس بات پر بھی ہوا کہ ڈاکٹر صاحبہ جن کا فیصلہ عین اسلامی اور آئینی تھا، وہ بھی میڈیا کے خوف سے اپنے فیصلے سے پیچھے ہٹ گئیں اور یہی کچھ گزشتہ سالوں سے ہر اُس وزیر اور حکومت کے ساتھ ہو رہا ہے جو اسلامی احکامات کی عملداری کی کوشش کرتا ہے۔ میں نے ٹی وی چینلز کے کچھ بڑوں سے بات کی اور اعتراض کیا کہ لباس کے متعلق جو ہدایت دی گئی اُس میں آخر خرابی ہے کیا؟ میں نے یہ بھی اعتراض کیا کہ سوشل میڈیا کی اس ویڈیو (جس میں ایک خاتون کو بغیر دوپٹہ کے سرکاری عمارت میں داخلہ سے روکا گیا) کو تو نیوز ہیڈ لائنز میں شامل کر دیاگیا اور اسے ایک بڑا مسئلہ بنا کر بھی پیش کیا گیا لیکن ٹی وی چینلز یا کسی بھی ٹاک شو نے اُس خبر پر کیوں نہ کوئی تبصرہ کیا اور اُسے اپنی ہیڈ لائنز کا حصہ کیوں نہ بنایا جس میں یہ انکشاف کیا گیا تھا کہ کم از کم دو ٹی وی چینلز کی انتظامیہ نے اپنی اینکر پرسنز کو سر ڈھانپنے سے روک دیا ہے۔ کچھ عرصہ قبل میں نے اپنے کالم میں بھی یہ انکشاف کیا تھا کہ پاکستانی ٹی وی چینلز کی دو نامور خواتین اینکرزنے مجھے خود بتایا کہ وہ اسلامی تعلیمات کی روشنی میں سر ڈھانپنا چاہتی تھیں لیکن اُنہیں اُن کی انتظامیہ نے روک دیا کہ وہ اپنے ٹاک شوز کے دوران سر کو اسکارف یا دوپٹہ سے نہیں ڈھانپ سکتیں۔ میں نے یہ مطالبہ بھی کیا تھا کہ صحافتی اور میڈیا کے دوسرے اداروں کو اس معاملے پر سخت نوٹس لینا چاہیے۔ میں یہ سمجھتا تھا کہ اس انکشاف پر میڈیا شور مچائے گا اور ٹی وی چینلز میں موجود ایسے افراد کے خلاف ایکشن لیا جائے گا جو میڈیا میں کام کرنے والی خواتین کو اسلامی لباس پہننے یا پردہ کرنےسے روکتے ہیں لیکن یہ میری غلط فہمی تھی۔ مجھے تو ایسا لگا جیسے میرا کالم کسی بھی ٹی وی چینل کے بڑے یا کسی بھی اینکر پرسن نے پڑھا ہی نہیں۔ خیر ٹی وی چینلز اور ٹاک شوز میں تو اس بات پر بھی اعتراض نہیں اُٹھایا گیا کہ وزیراعظم عمران خان کی اہلیہ بشریٰ بی بی کے پردہ کا میڈیا اور سوشل میڈیا میں موجود بیمار ذہن کیوں مذاق اڑا رہے ہیں۔ اپنے حالیہ انٹرویو میں خاتونِ اوّل نے بھی اس بات پر افسوس کا اظہار کیا تھا کہ اسلام کے نام پر قائم ہونے والے ملک میں اُن کے لباس، جو اسلامی احکامات کے مطابق ہے، کو کیوں ہدفِ تنقید بنایا جاتا ہے جبکہ غیر اسلامی اور نیم برہنہ لباس پر کوئی اعتراض نہیں کرتا۔ بشریٰ بی بی کا کہنا تھا کہ تنقید کرنی ہے تو اُن کی بات یا کسی عمل پر کی جائے نہ کہ ایسی بات پر جس کا تعلق خالصتاً اسلامی احکامات سے ہے۔ سوشل میڈیا میں آج کل ایک اور ویڈیو بہت عام ہو رہی ہے جس میں ایک مرد اور افغانی برقعہ میں ملبوس ایک عورت کو کسی تقریب میں ڈانس کرتے دکھایا گیا ہے۔ یہ ویڈیو ظاہر کر رہی ہے کہ اس کا مقصد برقعہ یا پردہ کا مذاق اڑانا ہے۔ اسلامی لباس کی توہین کرنے والوں کی حوصلہ شکنی کرنی چاہیے لیکن کیا کریں ایسی ویڈیوزپر تو ہمارے ٹی وی چینلز کی نظر ہی نہیں پڑتی۔(بشکریہ جنگ)۔۔

Facebook Comments

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں