تحریر: حسن تیمور جکھڑ۔۔
آج بڑی عجیب سی کیفیت ہے۔۔ ایک طرف صحافی تنظیموں/دھڑوں کے اکٹھ کی خوشی ہے تو دوسری جانب اپنے کچھ دوستوں کے عجیب روئیے کا دکھ۔۔آج کا احتجاج بلاشبہ تاریخی نوعیت/اہمیت کا حامل رہا ہے سب اپنے اختلافات بھلاکر اپنے ان بھائیوں کے لیےاکٹھے ہوئے جنہیں جبری برطرفی کا نشانہ بنایا گیا ۔ سجاد کاظمی صاحب تو یہ صدمہ برداشت بھی نہ کرپائے اور اسپتال جاپہنچے۔ اب ایسی صورتحال میں ایک ایسی صورتحال پیدا ہوگئی کہ تمام صحافتی دھڑے بھی اپنے اختلافات بھلا کر ایک ہوگئے لیکن افسوس صد افسوس کہ خود ورکر اپنے پیٹی بھائیوں کی کسی قسم کی اخلاقی مدد تک کرنے کے روادار نہ ہوئے۔
آج کے احتجاج کےدوران اس وقت افسوسناک صورتحال سامنے آئی جب ہمارے بہت سارے دوست بجائے ہماری اخلاقی سپورٹ کرنے کے، الٹا ہم سے الجھتے رہے کہ انہیں اندر جانے دیا جائے ۔کئی دوست زور زبردستی یا پھر چھپ چھپا کر اندرجانے میں کامیاب تو ہوگئے مگر پوری کمیونٹی کی نظر میں فیل قرار پائے۔ ان تمام دوستوں کےچہرے تمام مظاہرین لے اذہان پہ نقش ہوگئے ہیں اور یہ صورتحال خود ہمارے لیے بھی مایوس کن ہے کہ خدانخواستہ کل کو ان دوستوں کو کسی مدد کی ضرورت پڑی تو یہ کس منہ سے آئینگے ۔۔۔
علامتی طور پہ یہاں دو افراد کے ناموں کا ذکر کرنا ضروری بےحد ضروری ہے کہ جنہوں نے شائد شاہ سے زیادہ شاہ کی وفاداری والا محاورہ عملی طور پہ سچ کرنے کی کوشش کی ۔ سینئر کرایم رپورٹر عمر جاوید اور نمائندہ خصوصی لاہور نیوز حسن رضا کی جانب سے مظاہرین کے ساتھ ہونے والی بدسلوکی نے بےحد مایوس کیا ۔۔ شائد انہیں منیجمنٹ کی شاباش تو مل جائے لیکن یہ تو طے ہے کہ اہیں کمیونٹی کی جانب سے ضرور سزا ملنی چاہیے۔۔ میں لاہور پریس کلب سمیت تمام صحافتی تنظیموں سے گزارش کرونگا کہ وہ اس سلسلے انضباطی قدم اٹھائیں اور مالکان سے وفاداری دکھانے کےشوقین افراد کےخلاف ایک باقاعدہ مہم لانچ کی جائے تاکہ مستقبل میں ایسے واقعات کا تدارک ہوسکے۔۔(حسن تیمور جکھڑ)۔۔
(حسن تیمور لاہور کے سرگرم صحافی ہیں، لاہور پریس کلب کے عہدیدار ہیں اور لاہور کی میڈیاانڈسٹری میں کافی باخبر اور ایکٹیو دکھائی دیتے ہیں، یہ تحریر ان کی ٹائم لائن سے لی گئی ہے جس سے عمران جونیئر ڈاٹ کام اور اس کی پالیسی کا متفق ہونا ضروری نہیں۔۔علی عمران جونیئر)۔۔۔