تحریر: جاوید چودھری۔۔
ہم اس دنیا میں مسافر ہیں‘ ایک ان دیکھے‘ ان سمجھے سفر کے مسافر‘ ہمارے راستے کا اگلا موڑ کیا ہو گا؟ ہم چند قدموں کے بعد کھائی میں جا گریں گے‘ ہمارے سامنے پہاڑ آ جائے گا‘ ہم کیچڑ میں لت پت ہو جائیں گے یا پھر ہم کسی گھنے جنگل میں جا نکلیں گے‘ ہم نہیں جانتے‘ ہمارا سفر کس وقت تمام ہو جائے ہم یہ بھی نہیں جانتے لیکن ہم اس کے باجود اس سفر کو مشکل سے مشکل بھی بناتے چلے جارہے ہیں‘ دنیا میں سفر کے کچھ آداب‘ کچھ اصول ہوتے ہیں‘ مثلاً سفر کے دوران جتنا سامان کم ہوگا آپ کا سفر اتنا ہی اچھا کٹے گا‘ آپ اتنا دور جا سکیں گے‘ دوسرا ہم جب دوسرے مسافروں کے ساتھ الجھتے ہیں تو ہماری منزل کھوٹی ہو جاتی ہے۔
ہم آگے بڑھنے کی بجائے راستے میں رک جاتے ہیں اور یوں ہمارا سارا سفر برباد ہو جاتا ہے‘ تیسرا اپنے ساتھی مسافروں کی مدد کرنے والے مسافر ہمیشہ خوش اور متحرک رہتے ہیں اور چوتھا دنیا کا ہر وہ مسافر جو راستے کی خوب صورتی دیکھتا اور اللہ کی کائنات کی تعریف کرتا رہتا ہے وہ کبھی تھکتا نہیں لیکن ہم میں سے زیادہ تر لوگ ان اصولوں کا خیال نہیں رکھتے‘ ہم نے زندگی میں جو کچھ پا لیا‘ اللہ نے ہمیں جو نعمتیں عنایت کر دیں‘ ہم اس کا شکر ادا نہیں کرتے‘ ہم انھیں سیلی بریٹ نہیں کرتے‘ ہم دوسرے مسافروں‘ ساتھیوں‘ عزیزوں اور رشتے داروں کی مدد کرنے کی بجائے ان کے لیے زندگی کو مشکل بھی بناتے چلے جاتے ہیں چناں چہ ہم پوری زندگی خوشی سے محروم رہتے ہیں۔
ہم اپنی پوری زندگی مقابلہ بازی‘ ایک دوسرے کو نیچا دکھانے اور اپنی ناک بلند رکھنے میں ضایع کر دیتے ہیں‘ ہم خود آگے بڑھتے ہیں اور نہ دوسروں کو آگے بڑھنے دیتے ہیں چناں چہ ہمارے ساتھ ساتھ دوسروں کا سفر بھی خراب ہو جاتا ہے اور ہم عمر بھر اپنی اوقات‘ اپنی ہمت سے زیادہ سامان بھی اٹھاتے رہتے ہیں‘ ہم آخر میں اتنا بوجھ اٹھا لیتے ہیں کہ ہم چند قدم بھی نہیں اٹھا پاتے اور ہمارا سفر تمام ہو جاتا ہے‘ جمعہ 22 مئی کو لاہور سے کراچی جانے والے 91مسافراور عملے کے 8 ارکان بھی شاید ایسے ہی ہوں گے‘ یہ بھی شاید ہماری طرح اپنے بوجھ میں اضافہ کرتے رہے ہوں۔
ان کے دماغ‘ ان کے جسم اور ان کی روحوں پر بھی وزن ہی وزن ہو‘ یہ بھی شاید پوری زندگی دوسروں سے آگے نکلنے‘ دوسروں سے مقابلہ کرنے کے خبط میں مبتلا رہے ہوں‘ یہ بھی شاید اب تک زندگی کے اصل مزے سے محروم رہے ہوں‘ یہ بھی شاید اب تک اپنے خواب ہی بُنتے رہے ہوں‘ میں اگلے ہفتے یہ کروں گا‘ میں اگلے مہینے یہ کروں گا‘ میں 2021 میں ہر صورت یہ کروں گا اور میں ریٹائرمنٹ کے بعد پوری دنیا دیکھوں گا وغیرہ وغیرہ‘ یہ بھی شاید ہماری طرح روز ایسے منصوبے بناتے ہوں گے‘ اپنے ساتھ وعدے کرتے ہوںگے‘ موبائل فون اور ڈائریوں میں نوٹ بھی لکھتے ہوں گے لیکن پھر کیا ہوا؟ منصوبے‘ منصوبے اور وعدے‘ وعدے رہ گئے اور مسافروں کا سفر اچانک ختم ہو گیا۔
دنیا میں تین قسم کے لوگ ہوتے ہیں‘ وہ لوگ جو بار بار تجربہ کرتے ہیں اور یوں تجربوں سے سیکھ جاتے ہیں‘ دوسرے وہ لوگ جو ایک آدھ تجربے سے سیکھ کر اپنی زندگی کی سمت درست کر لیتے ہیں اور تیسرے وہ جو دوسروں کے تجربوں سے سیکھتے ہیں اور لائف کو انجوائے کرتے ہیں‘ ہمارا استاد ابن عربی تیسری قسم کے لوگوں کو صاحب بصیرت‘صاحب بصارت کہتا تھا‘ آپ بھی اگر صاحب بصارت اور بصیرت ہیں تو پھر آپ کراچی میں گرنے والے طیارے کو دیکھیں اور اپنا راستہ سیدھا کر لیں‘ ہم دنیا سے کسی بھی وقت رخصت ہو سکتے ہیں آپ یہ بات پلے باندھ لیں‘ یہ بھی ضروری نہیں آپ گاڑی چلا رہے ہوں یا پھر آپ ہوائی سفر کر رہے ہوں یا آپ بیمار ہوں تو آپ کی جان جا سکتی ہے۔
دنیا میں کسی بھی وقت کوئی بھی جہاز آپ کے گھر کے اوپر گر سکتا ہے یا کوئی بھی گزرتی ہوئی گاڑی کسی بھی وقت آپ کو اپنا لقمہ بنا سکتی ہے‘ آپ نہیں جانتے چناں چہ آپ زندگی کے ہر دن کو آخری سمجھ کر گزارنا سیکھ لیں‘ آپ نے جو کام کل کرنا ہے وہ آج کر لیں‘ اپنا بوجھ‘ اپنا سامان کم رکھیں اور دوسرے مسافروں کی مدد کرتے رہیں‘ آپ کو کوئی ملال‘ کوئی ٹینشن نہیں ہو گی‘ آپ یہ بات بھی پلے باندھ لیں فلائیٹ پی کے8303کے تمام مسافر آپ سے زیادہ عقل مند اور طاقت ور تھے‘ زندگی نے اگر انھیں 40 سکینڈز کی مہلت نہیں دی تو پھر آپ اور میں کون ہیں؟ ہم خود کو موت سے کب تک بچا لیں گے چناں چہ توبہ کریں‘ شکر کریں اور آج کے دن کو آخری سمجھ کر گزار دیں‘آپ کی دنیا اور آخرت دونوں اچھی ہو جائیں گی۔(بشکریہ ایکسپریس)۔۔