shartiya meetha | Imran Junior

دبئی لیکس

علی عمران جونیئر

دوستو،باباجی بہت غصے میں تھے، رات جب ان سے ملاقات ہوئی تو دبئی لیکس تازہ تازہ ”لیک” ہوا تھا، چینلز پر خبریں چل رہی تھیں، سوشل میڈیا پر بھی اس حوالے سے لوگ باتیں کررہے تھے۔۔باباجی اسی بات پر تپے ہوئے تھے کہ جس ملک کے زرمبادلہ کے ذخائر سے دگنا اس قوم نے صرف ایک شہر میں جائیدادیں خرید رکھی ہیں۔۔ وہ تشویشناک انداز میں کہہ رہے تھے کہ ۔۔یار مجھے تو اس بات پر شدید حیرت ہے اور میرا دماغ کام نہیں کررہا کہ بیوروکریٹس، ایک حاضر سروس آئی جی، ریٹائرڈ فوجی افسران نے کیسے دبئی میں اتنی مہنگی جائیدادیں خریدلیں؟؟ ان کی جتنی تنخواہ ہے اور جیسا ان کا لائف اسٹائل ہوتا ہے اس حساب سے تو ان سب کا ”یوم حساب” آجانا چاہیئے۔۔ ان سے پوچھنا چاہیئے سیلری کتنی تھی؟ باہر جائیدادیں کیسے بنائیں؟؟ باباجی نے اور بھی بہت کچھ کہا، لیکن ہم سرجھکائے خاموشی سے سنتے رہے۔۔ آخر میں باباجی نے یہ گفتگو اس بیانیہ پر اختتام پذیر کی۔۔آدھے دبئی کے مالک ہم، آدھے لندن کے مالک ہم، آدھا فرانس ہمارا، آسٹریلیا و نیوزی لینڈ کے قریب واقعے درجنوں جزیرے ہمارے ۔۔اور لوگ ایویں ہی روتے ہیں پاکستان ایک غریب ملک ہے۔ دبئی میں ہم نے وہ وہ عمارات خرید رکھی ہیں جو مکیش امبانی کرائے پر نہیں لے سکتا۔ ایون فیلڈ اپارٹمنٹ لینے کا ٹاٹا گروپ متحمل نہیں ہوسکتا۔ تے فیر وی اسیں غریب۔ ساڈی امیری ویکھو! ایک وزیراعظم ہم نے صرف بھیک مانگنے کے لیے رکھا ہوا ہے۔۔

کہتے ہیں کہ مینڈک کو چاہے سونے کی بنی کرسی پرہی بٹھا دیں پر وہ چھلانگ لگا کر واپس دلدل میں ہی جانا پسند کرتا ہے۔۔اسی مثال کو سامنے رکھتے ہوئے اب نوٹ کیجئے گا کہ کچھ انسان مینڈک کی طرح ہوتے ہیں ان کو آپ جتنی مرضی عزت دیں، کتنا ہی شاندار حسن سلوک کریںلیکن وہ اپنے اخلاق،سلوک اور برتاؤسے خود کو کم ظرف ثابت کرہی دیتا ہے۔۔آپ نے شاید یہ بات بھی کبھی نوٹ نہ کی ہو کہ آج کل تو دنیا بھی اسی کی خیریت پوچھتی ہے جن کے حالات ٹھیک ہوں، جو تکلیف میں ہوتے ہیں ان کے تو موبائیل نمبر تک کھو جاتے ہیں۔۔آپ کبھی ہمارے کہنے سے یہ بات بھی نوٹ کیجئے گا کہ ہمیشہ آلو۔ ۔ پیاز ۔ ۔ ۔ مولی، گندم اورگنا سستا ہو جاتا ہے کیوںکہ یہ غریب کسان کا ہے جب کہ ادویات، سیمنٹ، چینی، سریا،کھاد سستے نہیں ہوسکتے کیونکہ یہ سرمایہ دار اور سیاست دانوں کے ہیں۔۔یہ بات بھی آپ نے لازمی کبھی نہ کبھی تو نوٹ کی ہی ہوگی کہ جنازے میں شامل ہونے کے لئے لوگ دوسرے ممالک سے، سات سمندرپار سے آجاتے ہیں جب کہ فرض نماز کے لئے قریب کی مسجد میں جانا انہیں بہت مشکل لگتا ہے۔۔

ویسے ہماری قوم ذہانت میںبھی کسی سے کم نہیں۔۔دبئی کی پڑوسی ریاست ابوظہبی میں تین دوست جن میں ایک پاکستانی ایک انڈین اور ایک فلپائنی اکٹھے رہتے تھے،ان تینوں کو ایک جرم میں بیس بیس کوڑوں کی سزا سنا دی گئی۔جس دن سزا پر عمل درآمد ہونا تھااس دن وہاں کا کوئی قومی تہوار تھا۔قاضی صاحب نے اعلان کیا کہ سزا تو لازمی دی جائے گی لیکن ھمارے قومی تہوار کی وجہ سے آپ تینوں ایک ایک رعایت لے سکتے ہو،سب سے پہلے فلپائنی سے پوچھا کہ تم بتاؤ کہ کیا چاہتے ہو؟اس نے کہا کہ کوڑے مارنے سے پہلے میری کمر پر ایک تکیہ باندھ دیا جائے،چنانچہ اس کی کمر پر تکیہ باندھ کر کوڑے لگانے شروع کئے گئے،پندرہ سولہ کوڑوں کے بعد تکیہ پھٹ گیا اور باقی کوڑے اسے اپنی کمر پر سہنے پڑے۔اس کے بعد انڈین کی باری آئی،جب اس سے پوچھا گیا تو اس نے تکیے کی حالت دیکھنے کے بعد کہا کہ میری کمر پر دو تکیے باندھ دیں،چنانچہ اس کی کمر پر دو تکیے باندھ کر بیس کوڑے لگا دیئے گئے۔وہ بہت خوش ہوا کہ سزا پر عمل بھی ہوگیا اور تکلیف بھی نہیں ہوئی۔۔جب پاکستانی کی باری آئی تو قاضی نے کہا چونکہ تم ہمارے مسلم بھائی ہو اس لئے تمہیں دو رعائیتیں دی جاتی ہیں بولو کیا چاہتے ہو؟ پاکستانی بولا۔۔پہلی رعایت تو یہ دیں کہ مجھے بیس کی بجائے چالیس کوڑے مارے جائیں،قاضی اور دیگر لوگ بہت حیران ہوئے کہ یہ کیسی رعایت ہے،بہرحال پاکستانی سے دوسری رعایت کا پوچھا گیا تووہ کہنے لگا۔۔میری کمر پر اس انڈین کو باندھ دیں۔۔

حج کا سیزن قریب ہے، آپ سننے کے لئے تیار رہیں کہ کعبہ کے گرد گھومنے سے پہلے کسی غریب کے گھر گھوم آؤ۔مسجد کو قالین نہیں کسی بھوکے کو روٹی دے دو۔حج اور عمرہ پر جانے سے پہلے کسی نادار کی بیٹی کی رخصتی کا خرچہ اٹھالو۔تبلیغ میں نکلنے سے بہتر ہے کہ کسی لاچار مریض کو دوا فراہم کر دو۔مسجد میں سیمنٹ کی بوری دینے سے افضل ہے کہ کسی بیوہ کے گھر آٹے کی بوری دے آؤ۔۔یہ ساری باتیں نام نہاد لبرلز اور دانش وڑ کرتے ہیں۔۔یاد رکھیں۔۔۔دو نیک اعمال کو اس طرح تقابل میں پیش کرنا کوئی دینی خدمت یا انسانی ہمدردی نہیں بلکہ عین جہالت ہے۔اگر تقابل ہی کرناہے تو دین اور دنیا کا کرو اور یوں کہو!15، 20 لاکھ کی گاڑی اس وقت لو جب محلے میں بھوکا سونے والا کوئی نہیں ہو۔۔50، 60 ہزار کا موبائل فون اس وقت لو جب محلے میں بھیک مانگنے والا کوئی نہ ہو۔۔ہرکمرے میں اے سی اس وقت لگواؤ جب گرمی میں بغیر بجلی کے سونے والا کوئی نہ ہو۔۔برانڈڈ کپڑے اس وقت خرید کر پہنو جب سڑک پر پھٹے ہوئے کپڑے پہننے والا کوئی نہ ہو۔ کروڑوں کی گاڑیاں، لاکھوں کے موبائل فونز اورہزاروں کے کھلونے خریدتے وقت ان دانشوروں کو غربا، فقرا، بے آسرا اوربے سہارالو گ یاد نہیں آتے۔۔؟آخر یہ چڑ کعبہ، مسجد، حج وعمرہ، اور تبلیغ ہی سے کیوں ہے۔۔؟ان ضروریات کا فرائض سے موازنہ کر کے اور دینی فرائض سے غفلت کا درس دینے والے جب اپنی شادیوں پر عورتیں نچواتے ہیں تب ان کو کیوں یاد نہیںہوتا کہ وہ بھی کسی کی بیٹیاں اور بہنیںہیں۔؟ہزاروں آرام دہ اشیاء خریدتے وقت ان کو غریب کی بن بیاہی بیٹیاں کیوںنظر نہیں آتیں؟ایک بار ضرور سوچیں؟ کیا انسانیت کی خاطر غیر ضروری امور ترک کرنا بہتر ہے یا کہ فرائض کا ترک کرنا؟

اور اب چلتے چلتے آخری بات۔۔اگر شکر ادا کیا جائے تو چھوٹی سے چھوٹی خوشی بھی دل میں مسرت بھر دیتی ہے لیکن اگر روٹھے رہنے اور ناشکرے پن اور تلخ کلامی کی عادت ہو تو تمام دنیا کی سوغات پا کر بھی مسکرانا نا ممکن ہوتا ہے۔۔خوش رہیں اور خوشیاں بانٹیں۔۔

Facebook Comments

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں